پاکستان میں سیلاب سے جس قدر وسیع پیمانے پر انسانی و مالی نقصان ہوا ہے وہ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کے لئے فکر کا باعث ہے۔ دنیا کے متعدد ادارے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اتنی بڑی تباہی کے اصل محرکات کیا تھے اور مستقبل میں اس تباہی سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟ ان اداروں میں بلجیم کا ادارہ سینٹر فار ریسرچ آن ایپی ڈیمیولوجی آف ڈیزآسٹرز (سی آر ای ڈی)بھی شامل ہے ۔
دنیا بھرمیں وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والی قدرتی آفات پر تحقیقات کرنا اس کے فرائض میں شامل ہے۔ پاکستان میں آنے والے سیلاب کے حوالے سے ادارے کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان میں آنے والا سیلاب رواں عشرے میں آنے والا دنیا کا بدتر ین سیلاب ہے اور اس سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی مگر اس تباہی سے حتیٰ الامکان بچا جاسکتا تھا۔ گویا زیادہ اموات کا سبب بے خبری اور مناسب نظام کا نہ ہونا ہے۔ ادارے نے جو رپورٹ مرتب کی ہے اس میں اس بات پر روز دیا گیا ہے کہ پاکستان کو مستقبل میں اس طرح کی قدرتی آفت سے بچانے کے لئے وارننگ سسٹم نصب کرنا ہوگا۔
ادارے کی ڈائریکٹریس ڈی بیراتی گوہا ساپیرکا کہنا ہے کہ سیلاب جدید دنیا کی ایسی آفات میں شامل ہے جس کی پیشگوئی ممکن ہے۔ جدید دنیا سیلاب کی قبل از وارننگ نظام کو اپنا رہی ہے جس کی بدولت بے خبری میں بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہ کاریوں سے قبل از وقت بچا جاسکتا ہے۔ اس پیرائے میں پاکستانی سیلاب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتیں حیران کن ہیں۔
سینٹر فار ریسرچ آن ایپی ڈیمیولوجی آف ڈیزآسٹرز (سی آر ای ڈی) کا بنیادی کام انسانی صحت پر قدرتی آفات کے اثرات کا جائزہ لینا ہے۔ ادارے کا عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے الحاق ہے۔
موجودہ سیلاب کو بدترین سیلاب قرار دینے کی وجہ یہ قرار دی جارہی ہے کہ اس میں دوہزار چار میں ہیٹی میں آنے والے سیلاب سے بھی زیادہ افراد مارے گئے جبکہ ہیٹی دنیا کا وہ جزیزہ ہے جہاں قدرتی آفات ایک معمول ہیں۔ دوہزار چار میں دوہفتوں کی بارش سے سیلاب آگیا اور جس کے نتیجے میں دریا بپھرگئے اور چند دنوں میں ہی ڈھائی ہزار افراد موت کی گود میں جاسوئے۔
ادارے کی ڈائریکٹریس کا کہنا ہے کہ دوہزار پانچ میں بھارت میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بارہ سو افراد ہلاک ہوئے۔ اموات کے لحاظ سے یہ اس عشرے کا سب سے بڑا حادثہ تھا مگر پاکستان میں آنے والے سیلاب کے بعد اب اس کا نمبر دوسرا ہوگیا ہے۔ پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے ۔ یہ رقبہ انگلینڈ کے مجموعی رقبے کے برابر ہے ۔
جنوبی ایشیاء دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں اکثر سیلاب آتے رہتے ہیں۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش اس خطے کے بڑے ممالک ہیں ۔ یہاں سن دوہزار سے دوہزار نو تک گیارہ سیلاب آئے جن میں سے نو سیلاب میں صرف بھارت نشانہ بنا ۔ چونکہ یہاں غربت دوسرے خطوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے اور غربت کے سبب ہی زیادہ تر لوگ دریاوٴں اور ندی نالوں کے قریب رہنے پر مجبور ہیں لہذا سیلاب سے سب سے زیادہ اموات بھی اس خطے کے حصے میں آتی ہیں۔
ایشیائی ممالک اور خاص طور پر پاکستان کو اپنے عوام کی زندگی کو بہتر اور مستقبل میں آنے والے کسی بھی تباہ کن سیلاب سے بچنے کے لئے خود کو وقف کرنا پڑے گا ورنہ ہر بار سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ان ممالک کو سیلاب سے پہلے سیلاب کی وارننگ دینے والے نظام کو بھی نصب کرنا ہوگا ۔ یہ نظام نہ تو بہت زیادہ پیچیدہ ہے اور نہ ہی مشکل۔ ویت نام، بنگلہ دیش اور موزمبیق جیسے غریب ممالک کے لوگ سادہ سے ریڈیو جیسے نہایت سستے اور آسان وارننگ سسٹم پر عمل پیراہیں۔ اس کی مدد سے لوگوں کوقبل از وقت محفوظ مقامات پر منتقلی میں مدد ملتی ہے۔
موزمبیق جہاں سن دوہزار میں سیلا ب سے آٹھ سو افراد ہلاک ہوگئے تھے وہاں سیلاب کی پیشگی وارننگ جاری کرنے والا ایساکمیونٹی بیسڈ سسٹم موجود ہے جو اس قسم کے دوسرے نظاموں کے مقابلے میں مثالی ہے۔ موزمیبق جنوبی افریقہ کا ملک ہے اور یہاں اس نظام کی بدولت ہرسال آنے والے سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی اموات پر قابو پانے میں بڑی مدد ملی ہے۔