کراچی میں بارش: ’کسی کو کوئی فکر نہیں کہ کوئی ڈوب جائے یا تیر کر آئے‘

فائل فوٹو

"میرے لیے ہر بارش میں آفس پہنچنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ نارتھ کراچی سے شاہراہ فیصل تک کچھ منٹ کا سفر کئی گھنٹوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میری بائیک سڑکوں پر جمع پانی کی وجہ سے خراب نہ ہوئی ہو۔" یہ کہنا ہے کراچی کے مکین محمد جبران کا، جو ایک نجی کمپنی میں ملازم ہیں۔

"مجھے نوکری کرتے ہوئے آٹھ برس ہو گئے ہیں، جب بھی مون سون کا سیزن آتا ہے میں ذہنی طور پر تیار ہو جاتا ہوں کہ کراچی کے نالے اور سڑکیں پھر سے بھر جائیں گی اور آمدورفت شدید متاثر ہوگی۔ ایسے حالات میں دفتر والے نہیں سمجھتے کہ کس طرح آفس پہنچ رہے ہیں۔ اگر ایک دن بھی چھٹی کی جائے تو تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔"

مون سون کی بارش کا سلسلہ اس وقت پورے ملک میں جاری ہے۔ محکمۂ موسمیات نے ان بارشوں سے قبل ہی وارننگ جاری کی تھی جس میں واضح کیا تھا کہ سندھ اور اس کے دارالحکومت کراچی کے نشیبی علاقے زیرِ آب آنے اور اربن فلڈ کا خدشہ ہے۔

وقت سے قبل مون سون بارش

محکمہ موسمیات نے 26 اور 27 جولائی کو سندھ کے دیگر اضلاع سمیت کراچی میں شدید بارش کی پیش گوئی کی تھی البتہ کراچی میں 24 جولائی سے ہی بارش کا آغاز ہو گیا تھا۔

کراچی میں اتوار سے پیر تک کے گزشتہ 24 گھنٹوں میں لگ بھگ 200 ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ کی جاچکی ہے، جس کے بعد شہر کی صورتِ حال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔

صوبائی حکومت نے مسلسل بارش ہونے کے سبب کراچی اور حیدر آباد ڈویژن میں عام تعطیل کا اعلان کیا اور شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت بھی کی۔

نجی دفاتر سے چھٹی کی اپیل

صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں عام تعطیل کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ وہ درخواست کرتے ہیں کہ نجی کمپنیاں، دفاتر بھی بند کئے جائیں البتہ کراچی میں بہت سے نجی دفاتر کھلے ۔ ان دفاتر آنے والے بعض ملازمین کے مطابق وہ بہت سے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے آفس پہنچے ہیں۔

کراچی: مون سون بارشوں میں شہر کا ڈوبنا معمول بن گیا

کراچی کے علاقے انچولی کی رہائشی بینش وقاص ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ "میں جب صبح آفس جانے کے لیے اٹھی تو دیکھا میرے لاؤنج میں پانی آیا ہوا تھا۔ اسے صاف کیا اور ناشتہ بنانے کچن میں گئی تو وہاں بھی پانی آنے کے سبب چولہا نہیں جل رہا تھا۔"

انہوں نے کہا کہ وہ جس گاڑی کے ذریعے آفس آتی جاتی ہیں اس نے بھی بارش کے سبب پیر کو انہیں دفتر لے جانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے آفس فون کال کی تو وہاں سے ہدایات ملیں کہ ان کی دفتر میں موجودگی ضروری ہے۔ اس لیے دفتر کی جانب سے گاڑی بھیجی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آفس نے ایک چھوٹا ٹرک ان کو لینے کے لیے بھیجا، جس میں آفس کی دیگر چار خواتین بھی موجود تھیں اور وہ اس گاڑی سے دفتر پہنچیں۔ ان کے مطابق کوئی ایسی سڑک نہیں تھی جو بارش کے پانی سے بھری ہوئی نہ تھی۔ کئی موٹر سائیکلیں، رکشے خراب کھڑے تھے جب کہ کئی مقامات پر جہاں کھلے ہوئے گٹر ہوں گے، وہاں شہریوں نے ڈنڈے لگا کر نشاندہی کی تھی کہ کوئی شخص یا گاڑی وہاں نہ جائے۔ ان میں پانی تیزی سے جارہا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ گھر واپسی کیسے ہوگی؟ کیوں کہ مزید بارش بھی تو ہو گی۔

سڑکوں پر گڑھے اور کھلے گٹر مسائل میں اضافے کا سبب

ملیر میں سعود آباد کے علاقے کی رہائشی مانیہ کے مطابق یہ تو ہر سال کا مسئلہ ہے، ہر بار بارش میں ماڈل کالونی اور کالا بورڈ جانے والی سڑک بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ حال ہی میں نئے گھر میں شفٹ ہوئے ہیں کیوں کہ 2020 کی بارش میں ان کی گلی زیر آب آ گئی تھی یہاں تک کہ گھر کے اندر تک پانی آجاتا تھا۔ نہ کوئی باہر جاسکتا تھا نہ اپنے گھر تک آ سکتا تھا۔

SEE ALSO: شدید بارش کے بعد بجلی بند اور آمد و رفت معطل؛ کراچی کا نظام بیٹھ گیا

وہ کہتی ہیں کہ کل سے جاری بارش کے بعد آج یہ حال ہے کہ دفتر جانے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ موجود نہیں۔ تیز بارش کے بعد پانی کا گھنٹوں تک جمع رہنا تو سمجھ آتا ہے لیکن جو سڑکوں پر کئی کئی فٹ گہرے گڑھے اور کھلے گٹر ہیں، وہ لوگوں کے لیے مزید مسائل کا سبب بنتے ہیں۔کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کب کیا ہوجائے۔ اس کے سبب ان کے والد کااور ان کا بھی ایکسیڈنٹ ہوچکا ہے۔

’جو نقصان ہوا وہ کون پورا کرے گا؟‘

مون سون کے تیسرے اسپیل میں جہاں شہر کا ہر علاقہ متاثر دکھائی دے رہا ہے، وہیں دوسرے اسپیل میں اولڈ سٹی ایریا میں نکاسیٴ آب کا مسئلہ بہت دن تک رہا، جس سے کاروباری مراکز اور دکانیں متاثر ہوئیں۔ لی مارکیٹ کے رہائشی محمد شکور کی صدر میں دکان ہے، جو حالیہ بارش میں پانی سے بھر چکی تھی اور کل کی بارش کے بعد سے ان کی پریشانی بڑھ چکی ہے۔

" صوبائی حکومت نے اولڈ سٹی ایریا کو لاوارث چھوڑ دیا۔ میں اور دیگر بہت سے دکان داروں نے جب بارش رکنے کے بعد اپنی دکانوں کا رخ کیا، تو اس گلی میں بارش کا پانی کئی کئی فٹ موجود تھا۔ جو بھی کچھ میں دکان سے نکال سکتا تھا۔ میں نے نکالا البتہ جو نقصان ہوا وہ کون پورا کرے گا؟"

ان کا مزید کہنا تھا کہ مون سون نے تو ہر سال آنا ہے۔ حکومت کو خیال نہیں آتا کہ کچھ ایسا نظام بنا دے کہ ہم جیسے چھوٹے تاجر نقصان سے بچ جائیں۔

انہوں نے کہا کہ اب کل سے بارش ہو رہی ہے۔ وہ مزید نقصان دیکھنے کے لیےاپنی دکان کا رخ کریں گے۔تاجر کیا صرف ٹیکس دینے کے لیے ہیں، جس کا فائدہ انہیں ہی نہیں ہو رہا۔

’آج کاروبار بند ہے تو پریشانی زیادہ ہے‘

ساٹھ سالہ شمشیر خان اولڈ سٹی ایریا کی کپڑا مارکیٹ میں لوڈر کا کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت نے پیر کو عام تعطیل کر دی ہے جب کہ بازاروں اور سڑکوں پر پانی جمع ہے جس سے ان کی مزدوری کا دن ضائع ہوگیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کراچی کے نالوں میں برساتی پانی کی نکاسی کی گنجائش نہیں، ایڈمنسٹریٹر کراچی

"میں دن کے 300 سے 400 روپے کماتا ہوں۔ مہنگائی بہت زیادہ ہے گھر میں کھانے والے لوگ زیادہ ہیں۔ ہم جیسے مزدور روز کے روز کماتے ہیں۔ پھر آٹا سبزی خرید کر پکاتے ہیں لیکن آج کاروبار بند ہے تو پریشانی زیادہ ہے۔ جن کے پاس کام کرتے ہیں وہ الگ پریشان ہے کہ ان کے گوداموں میں بھی پانی چلا گیا ہے۔ سرکار اگر یہ مسئلہ حل کر دے تو ہم سب کی زندگی میں سکون آ جائے گا۔"

’نکاسی کے نظام کو وسیع کرنا ایک دشوار مرحلہ ہے‘

شہر کی سڑکوں سے پانی کی نکاس کے حوالے سے ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کراچی کا نکاسیٴ آب کا موجودہ نظام قدیم ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی والے شہر میں اس نظام کو وسیع کرنا ایک دشوار مرحلہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر 60 سے 70 ملی میٹر بارش ہو تو موجودہ نالے اس پانی کو بہا لے جانے کی گنجائش رکھتے ہیں البتہ اس سے زیادہ بارش کی صورت میں معاملات مختلف ہو جاتے ہیں۔

ان کے مطابق وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ اس شہر میں سے قدرتی برساتی نالے وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئے ہیں۔ جو نالے اس وقت ہیں وہ گنجائش سے زیادہ پانی آنے کے سبب بہاؤ کو واپس پھینک دیتے ہیں۔

گرین لائن بس سروس بند

ٹریک پر پانی آنے کے سبب نیو کراچی سے نمائش جانے والی گرین لائن بس سروس پیر کو بند کر دی گئی ہے۔

SEE ALSO: کراچی میں بارش سے تباہی، 'پوش علاقے ڈوب گئے ہیں تو باقی شہر کا کیا حال ہو گا'

نارتھ ناظم آباد کی رہائشی عمارہ عابدی بینک میں ملازمت کرتی ہیں۔ وہ پیر کو بھی عام تعطیل کے باوجود بینک برانچ کی ہدایت پر وہاں پہنچی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عمارہ عابدی کا کہنا تھا کہ بارش کے بعد پیدا ہونے والے مسائل وہ بچپن سے دیکھ رہی ہیں۔ ذرا سی بارش ہوئی اور سڑکیں، گلیاں، گٹر بھر جاتے ہیں۔ مرد تو ان مسائل کو کسی نہ کسی طرح حل کر کے دفتر یا گھر پہنچ ہی جاتے ہیں لیکن اگر کوئی عورت ملازمت پیشہ ہو تو اس کے مسائل بے شمار ہیں۔ ایک طرف تو کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ اپنا خیال رکھتے ہوئے آ جائیں لیکن آپ پر اگر بہت ذمہ داری ہے تو آپ ہر صورت پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی کو کوئی فکر نہیں کہ کوئی ڈوب جائے یا تیر کر آئے۔ یہ مناظر دیکھتے دیکھتے کئی برس گزر چکے ہیں۔

"میری گاڑی اس وقت ایک سڑک کنارے بند ہے اور میں کس طرح سے بینک برانچ پہنچی ہوں، یہ صرف میں جانتی ہوں۔ ایسے حالات میں اگر کوئی بھی شخص باہر نکلتا ہے، تو ایک تو وہ ان مسائل کا سامنا کرتا ہی ہے، ساتھ ہی اپنی جان کی بھی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ یہ کہہ دینا کہ چھٹی ہے گھر سے نہ نکلیں کافی نہیں۔ شہر ہر برس کیوں پانی سے بھر جاتا ہے۔ اس کا حل نکالنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔"

’گھر میں سیوریج کا پانی داخل ہوگیا ہے‘

فیڈرل بی ایریا بلاک -13 کی رہائشی عمیمہ بتاتی ہیں کہ اتوار سے ہونے والی بارش سے ان کے گھر میں سیوریج کا پانی داخل ہوگیا ہے، جس سے گھر کا سامان، کپڑے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ گلی میں مسلسل ڈیڑھ فٹ پانی موجود ہے۔ تیز بارش کے سبب چھت سے بھی پانی آ رہا ہے۔ گھر والے پریشان ہیں کہ وہ کیا کریں اور کیا سنبھالیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ اور حبس زدہ موسم نے مزید اذیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ اس وقت شدید پریشانی اور ناامیدی کی کیفیت ہے جس سے سب گزر رہے ہیں۔

شہر کے سب سے پوش علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کا حال بھی شہر کے دیگر علاقوں سے مختلف نہیں۔

ڈی ایچ اے بھی محفوظ نہیں

مسز وصی خان ڈی ایچ اے-فیز فور کی مکین ہیں۔ وہ یہاں چھ برس قبل پی ای سی ایچ ایس سے شفٹ ہوئی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ 2020 میں بھی ہمارے گھر کا زیرِ زمین حصہ پانی سے بھر گیا تھا۔ گھر کے ائر کنڈیشنرز سے پانی آ رہا تھا۔ گلیوں میں اتنا پانی کھڑا تھا کہ وہ کار پارکنگ سے بیسمنٹ میں جا رہا تھا۔ لاکھوں روپے کا نقصا ن ہوا تھا۔ رواں برس بھی مون سون میں وہی حال ہے۔ یہاں سے گھر چھوڑ کر کس پہاڑ پر جا کر رہیں۔

محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سردار سرفراز کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ 2021 کے مون سون کی بارش کو 2020 کی بارش جیسا کہا جاسکتا ہے۔ 2020 میں 28 اگست کو کراچی میں زیادہ سے زیادہ بارش 230.5 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی تھی البتہ اس وقت ہونے والی بارش میں صدر میں 24 گھنٹوں میں 217 ملی میٹر بارش ہوچکی ہے۔

سردار سرفراز کہتے ہیں کہ پیر کو کہیں ہلکی اور کہیں معتدل بارش کا سلسلہ شام اور رات تک وقفے وقفے سے جاری رہے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ منگل کو کراچی، حیدر آباد، سجاول، ٹھٹھہ اور بدین میں تیز بارش ہونے کا امکان ہے۔ 27 جولائی کو یہ سسٹم بالائی اور وسطی سندھ میں کہیں تیز تو کہیں ہلکی بارش برسائے گا۔