'پاکستان میں ہر سال ٹی بی کے مریضوں میں پانچ لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے'

فائل فوٹو

پاکستان میں شعبہ صحت سے وابستہ عہدیداروں کا کہنا ہے ملک میں تپ دق یعنی 'ٹی بی' سے متاثرہ مریضوں میں ہر سال پانچ لاکھ افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔

قومی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر عامر اکرام نے یہ بات ایک ایسے وقت کہی جب ہفتہ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں تپ دق سے بچاؤ کا عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد اس مرض سے متعلق عوام میں شعوروآگاہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات پر زور دینا ہے جن سے ٹی بی کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عامر نے کہا کہ دنیا بھر میں تپ دق سے متاثرہ ملکوں میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے جبکہ ملک میں ایسے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے جو اگرچہ تپ دق کے جراثیم کا شکار ہیں لیکن وہ اس بات سے آگاہ نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تپ دق انسانی جسم کے کسی بھی حصے کو متاثر کر سکتی ہے۔

"سب سے زیادہ اس میں پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں اس لیے لوگ یہ سمجھتے ہیں شاید تپ دق پھیپھڑوں کی بیماری ہے ایسا نہیں ہے۔ یہ پھیپھڑوں کو متاثر کیے بغیر جسم کے کسی دوسرے حصے کو بھی متاثر کرسکتی ہے جن میں ہڈیوں اور بعض اوقات دماغ کے اوپر جھلیاں بھی شامل ہیں۔"

ڈاکٹر عامر نے کہا کہ اس مرض کی علامات میں مسلسل ہلکا بخار رہنا، وزن کا کم ہونا، پسینے آنا اور اگر پھیپھڑے متاثر ہوں تو بلغم کا آنا شامل ہیں اور ان کے بقول ایسی کسی بھی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ بروقت تشخص، مناسب علاج اور احتیاطی تدابیر سے تپ دق سے بچاؤ ممکن ہے۔

"یہ مرض ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہو سکتا ہے ، خاص طور پر یہ بلغم کے اخراج سے تپ دق کے جراثیم ہوا میں تھوڑی دیر معلق رہنے کی وجہ سے کسی دوسرے شخص کو بھی منتقل ہو سکتے ہیں ۔"

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ "جن گھروں میں تپ دق کے مریض ہوں انہیں الگ کمرے میں رکھنا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا علاج شروع کروانا ضروری ہے اور چھ ماہ تک جاری رہنے والے علاج سے مریض صحت یاب ہو جاتا ہے۔"

طی ماہرین کا کہنا ہے ٹی بی کا علاج مکمل طور پر کروانا ضروری ہے کیونکہ اگر ٹی بی کا علاج نامکمل رہ جائے تو ٹی بی کی ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں تپ دق سے متاثر مریضوں کی تعداد میں اضافہ پر عالمی سطح پر بھی تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس تشویش کو مدنظر رکھتے ہیں حکومت نے 2025ء تک ملک میں تپ دق سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں 90 فیصد کمی لانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

ڈاکٹر عامر نے کہا کہ اگرچہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر صحت کی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ایک چیلنج ہے تاہم ملک بھر میں تپ دق کے مرض کی تشخیص لیے کے 25 لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں جب تپ دق کے علاج کے سیکڑوں مراکز بھی کام کررہے ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ اگرچہ اس مرض کا علاج مہنگا ہے لیکن حکومت نیشل ٹی بی کنڑول پروگرام کے تحت عالمی ادارہ صحت اور گلوبل فنڈ کے تعاون سے تپ دق کے مریضوں کے لیے ادوایات بھی فراہم کر رہی ہیں۔