آگہی کے فروغ میں خواتین صحافیوں کا کردار

آگہی کے فروغ میں خواتین صحافیوں کا کردار

پاکستان میں صحافت جب تک پرنٹ میڈیا تک محدود رہی خواتین صحافیوں کی تعداد اور کردار بھی محدود ہی رہا۔ مگر گذشتہ آٹھ سالوں کے دوران الیکٹرانک میڈیا جس تیزی سے پھیلا ہے اس نے ذراعء ابلاغ میں خواتین کے لیے اپنا کردار موثر طور پر اداکرنے کے بے شمار مواقع پیدا کر دیے ہیں ۔ کراچی پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلٹس نے مشترکہ طور پرسیکنڈ وومن جرنلسٹس کنونشن کا انعقاد کیا جس میں فروغِ آگہی میں خواتین صحافیوں کے کردار اور ملازمت کے دوران ا نھیں درپیش چیلنجز پر بات کی گئی ۔

اس موقع پر مہمانِ خصوصی اور صوبائی وزیر شازیہ مری نے اپنے خطاب میں صحافت میں خواتین کے کردار کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ خواتین کو دیگر شعبوں کی طرح صحافت میں بھی چیلنجز کا سامنا ہے لیکن اگر ان میں آگے بڑھنے کا عزم ہے تو انھیں ان کا سامنا کرکے یہ تاثر رد کردینا چائیے کہ خواتین کمزور ہیں اور مردوں کی طرح کام نہیں کر سکتیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر خواتین کے خلاف کوئی گروپ یا کسی کا انفرادی عمل غیر قانونی یا غلط اقدام کرتا ہے تو ثقافت اس کے لیے ذمہ دا رنہیں ۔ ”یہ ایک غلط فہمی ہے کہ خواتین کی ترقی میں ہماری ثقافت ایک رکاوٹ ہے بلکہ ہماری ثقافت کسی بھی شعبہ میں خواتین کی نمائندگی کو فروغ دیتی ہے ۔ “

شاہدہ قاضی

اس کنونشن میں صحافت میں نام کمانے والی اور ذرائع ابلاغ کی تدریس سے وابستہ ممتاز خواتین صحافیوں نے بھی شرکت کی اور اپنے تجربات اور کامیابیوں سے مختلف ادارو ں سے وابستہ خواتین صحافیوں کو آگاہ کیا ۔ شاہدہ قاضی کا شمار پاکستان کی پہلی خاتون صحافیوں میں ہوتا ہے۔ وہ جامعہ کراچی میں طویل عرصہ سے صحافتی تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہی ہیں اور ان دنوں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ میں میڈیا اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ کی سربراہ ہیں ۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا ” میرے وقت میں صحافت میں آنا ایک نئی بات تھی لیکن میں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور آج میں جس عہدے پر ہوں ہر چینل یا اخبار میں میرے طالبِ علم کام کر رہے ہیں اور مجھے اس پر فخر ہے۔ “

ان کا کہنا تھا کہ خواتین جس شعبہ میں بھی جائیں گی انھیں مشکلات درپیش رہیں گی لیکن کام کرتے ہوئے وہ بھول جائیں کہ وہ ایک خاتون ہیں بلکہ صرف ایک صحافی ہیں اور اس طرح کام کریں جیسے مرد کرتے ہیں ۔ اگر وہ مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گی تو کبھی ناکام نہیں ہوں گی۔ تاہم انھوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار بھی کیا کہ صحافت یا ابلاغِ عامہ کے شعبوں میں زیرِ تعلیم بیشتر خواتین اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد منظر سے غائب ہوجاتی ہیں جو صحافت کے لیے اچھا شگون نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو ڈگری لینے کے بعد اگر گھر میں ہی بیٹھنا ہے تو وہ سوچ سمجھ کر شعبہ کا انتخاب کریں تاکہ وہ سیٹ ضائع نہ ہو۔

ناصرہ زبیری



ناصرہ زبیری 22 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مختلف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اپنی خدمات فراہم کر چکی ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا ” جس رفتار سے صحافت میں خواتین کی تعداد کو بڑھنا چائیے مجھے وہ شرح نظر نہیں آرہی ۔ صحافت میں خواتین کی شرکت کو بڑھانے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے ۔“

سمعیہ ایک اخبار کے لیے کام کرتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ” اگرچہ الیکٹرانک میڈیا فروغ پا رہا ہے لیکن میں اب بھی صحافت میں خواتین کی تعداد کو کم ہی سمجھتی ہوں کیوں کہ اگر میں رپورٹنگ کے لیے جاتی ہوں تو اکثر اوقات میں وہاں اکیلی ہی خاتون ہوتی ہوں ۔ “

کنونشن میں موجود خواتین نے جہاں اپنے مسائل کا تذکرہ کیا وہاں اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ اگر وہ ان مشکلات کا مقابلہ کر لیں تو نئے آنے والوں کے لیے بہت سی آسانیاں چھوڑ جائیں گی۔