پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک موقر غیر سرکاری تنظیم "سپارک" نے اپنی سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ سال جنسی زیادتی کے شکار ہونے والے بچوں کے اعدادوشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ روزانہ اوسطاً دس بچوں کو جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں، حکومتی اداروں اور بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں سے حاصل کردہ اعدادوشمار سے پتا چلا کہ 2015ء میں 3768 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔
رپورٹ کے لیے تحقیق کرنے والوں میں شامل مریم سومرو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بدقسمتی سے بچوں کی حالت زار سے متعلق قومی سطح پر کمیشن کے نہ ہونے کے باعث بچوں کے مسائل کے بارے میں حقیقی صورتحال کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔
انھوں نے اس امر کو باعث تشویش قرار دیا کہ بچوں کی اکثریت ایسے لوگوں کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا نشانہ بنی جنہیں وہ یا ان کے گھر والے جانتے تھے۔
"بچے اپنے والدین کو اس بارے میں بتانے سے ہچکچاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ ہوا، کوئی غلط حرکت ہوئی یا کسی نے ہمیں غلط طریقے سے چھوا۔ بچے ڈرتے ہیں کہ اگر ہم اپنے والدین کو بتائیں گے تو ہمیں ڈانٹ پڑے گی۔"
مریم کا مزید کہنا تھا کہ "لہذا سب سے پہلے ہمیں یہ کرنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ گھر پر بات کریں ہم انھیں یہ اعتماد دلائیں کہ اگر ان کے ساتھ کچھ غلط ہو تو آپ ہمیں بتائیں۔ اگر یہ سلسلہ گھر سے شروع نہیں ہوگا تو باہر والے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔"
گزشتہ سال پنجاب کے ضلع قصور میں بچوں سے جنسی زیادتی کا ایک بڑا اسکینڈل سامنے آیا تھا جس سے پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔
یہاں دو سو سے زائد بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اس مکروہ فعل کی وڈیو بنا کر انھیں اور ان کے گھر والوں کو دھمکانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا تھا۔
رواں ہفتے ہی لاہور کی ایک عدالت نے قصور واقعے میں ملوث دو مجرموں کو عمرقید کی سزا سنائی تھی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی رکن اور حکمران جماعت کی قانون ساز زہرہ ودود فاطمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ غیرسرکاری تنظیموں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آنے والے واقعات اور اعدادو شمار کو حکومت بہت سنجیدگی سے لیتی ہے جب کہ انسانی حقوق اور خصوصاً بچوں کے حقوق کے ضمن میں موجودہ حکومت نے کئی اقدام کیے اور کر بھی رہی ہے۔
"ہم نے بچوں کے لیے تعلیمی پالیسی، صحت کی پالیسی بنائی ہے، بچوں پر تشدد کے خلاف ہم کام کر رہے ہیں، ہماری قائمہ کمیٹی میں اس پر بحث جاری ہے۔۔۔حکومت اس پر پوری طرح توجہ دے رہی ہے کہ جب تک پاکستان میں ان معاملات سے متعلق ہم بہتری نہیں لائیں گے ہمارا آگے بڑھنا بہت مشکل ہے۔ وقت ضرور لگے گا لیکن ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔"
حال ہی میں ملک کے ایوان بالا سینیٹ نے تعزیرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری میں ترامیم کا ایک بل منظور کیا تھا جس کے تحت بچوں پر جنسی حملوں، جنسی استحصال، بچوں سے متعلق فحش مواد کی تیاری و ترویج اور بچوں کی اندرون ملک تجارت کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا۔
بچوں پر مبنی جنسی مواد کی تیاری سے متعلق اس سے قبل ملکی قوانین میں کوئی ذکر نہیں تھا لیکن اب اس میں ملوث مجرم کو سات سال قید کی سزا دی جا سکے گی۔
تاہم بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مریم سومرو سمیت اکثر کارکنوں کا کہنا ہے کہ قوانین کے موثر عملدرآمد سے ہی صورتحال میں بہتری کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔