پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کی رجسٹریشن کے لیے پہلے سے طے حمتی تاریخ میں ایک ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے۔ اس سے قبل ’این جی اوز‘ کو اندارج کے لیے 30 نومبر تک درخواستیں جمع کروانی تھیں۔
منگل کو وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ 30 نومبر تک 129 بین الاقوامی این جی اوز کی طرف سے رجسٹریشن کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو اُن کے بقول ایک بہت حوصلہ افزا تعداد ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ چند ہفتوں میں وزارت داخلہ فیصلہ کرے گی کن تنظیموں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دی جانی چاہیئے۔
وزیر داخلہ نے اس موقع پر اعلان کیا کہ حکومت یکطرفہ طور پر رجسٹریشن کی مدت میں ایک ماہ توسیع کر رہی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ عالمی تنظیمیں ملک میں کام کریں، تاہم رجسٹریشن کی درخواست نہ دینے والی تنظیموں کو اپنا کام بند کرنا ہو گا۔
’’پہلی جنوری 2016تک جن آئی این جی اوز نے باقاعدہ درخواست نہیں دی ہو گی، ان کو اس ایک ماہ کے دوران ملک بدر کر دیا جائے گا۔ انہیں پہلی جنوری تک ملک چھوڑنا ہوگا۔‘‘
حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ ملک میں کئی سال سے درجنوں غیر ملکی این جی اوز کام کر رہی ہیں مگر صرف 19 نے اپنی باقاعدہ رجسٹریشن کرائی تھی جبکہ دیگر بغیر کسی اجازت نامے یا نگرانی کے کام کر رہی تھیں۔ حکومت کا کہنا تھا کہ اس سے سکیورٹی خدشات نے بھی جنم لیا۔
رواں سال حکومت نے بین الاقوامی این جی اوز کو ملکی قوانین کے دائرے میں لانے کے لیے کارروائی کا آغاز کیا تھا اور ان کے اندراج کا ایک نیا نظام متعارف کرایا تھا تاکہ ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جا سکے۔
اس سلسلے میں بچوں کے لیے کام کرنی والی بین الاقوامی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کا اسلام آباد کا دفتر چند ہفتوں کے لیے سیل کر دیا گیا تھا مگر بعد میں اسے بھی مخصوص علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
کئی عالمی اداروں اور ملک کے قانون سازوں کی طرف سے حکومت کی کارروائی پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ سکیورٹی خدشات کو بنیاد بنا کر حکومت عالمی تنظیموں کو ان علاقوں میں کام کرنے سے روک رہی ہے جو پہلے ہی پسماندہ ہیں اور جہاں سرکاری سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
عالمی این جی اوز سے وابستہ بعض افراد کا موقف ہے کہ رجسٹریشن کا نظام نہایت پیچیدہ، وقت طلب اور پابند کرنے والا ہے۔ تاہم وزیر داخہ کا کہنا تھا کہ انہیں رجسٹریشن کے عمل سے متعلق این جی اوز کی جانب سے کسی طرح کی شکایات موصول نہیں ہوئیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت کا مؤقف درست تھا۔