پاکستان میں تفریح کی دنیا، ٹیکنالوجی کی بدولت ایک مرتبہ پھر کروٹ لے رہی ہے۔ اب گھروں کی چھت پر ڈش انٹینا کا دور رخصت ہو رہا ہے، کیبل پر بالی وڈ فلموں کی نمائش پر پابندی ہے، ٹی وی پر بھارتی ڈرامے اور کیبل پر بھارتی فلمیں اور پروگرامز نہیں دکھائے جا سکتے، لیکن کون سا ڈرامہ یا پروگرام اور کون سی ایسی ہے فلم ہے جس تک لوگوں کی رسائی نہ ہو۔
بھارتی پروگراموں، فلموں اور گانوں سے دلچسپی رکھنے افراد سے بات چیت میں یہ چیز سامنے آئی کہ فلموں اور ڈراموں کے کرداروں اور اداکاروں متعلق ان کی معلومات بہت 'اب ٹو ڈیٹ' ہیں۔
درجنوں خواتین کو علم ہے کہ اب 'کرائم پیٹرول' کے اینکر 'انوپ سونی' شو میں نہیں آتے۔ ایک صاحب کو یہ تک پتا ہے کہ اس ہفتے کونسی فلمیں ریلیز ہوں گی اور وہ کب 'ٹورنٹ'یا دیگر ویب سائٹس یا ویب پورٹلز سے ڈاؤن لوڈ ہو سکیں گی۔
اتنی بندشوں کے بعد بھی سب کو، ''سب کچھ پتا'' ہے کہ کون سی فلمیں کہاں سے اور کیسے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہیں۔
یہ کوئی جادو یا کمال نہیں بلکہ اس کا سبب انٹرٹینمنٹ ورلڈ میں جدید ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ پچھلی تین دہائیوں میں جیسے جیسے ٹیکنالوجی تبدیل ہوئی ہے، تفریح کی دنیا میں بھی اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ لیکن ہر نئی ٹیکنالوجی اپنے ساتھ اچھے اور برے یا مثبت اور منفی اثرات ضرور لاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ برے اثرات سے بچنے کے لئے کیا کرنا ہو گا؟
کراچی شہر کے بڑے کیبل آپریٹرز نے وی او اے کو بتایا '' ایک دور میں لوگ ہمارے پاس آ کر اس لیے لڑتے تھے کہ فلاں چینل لگاؤ اور اگر نہ لگایا تو پیسے نہیں دیں گے، لیکن اب جب سے 'میجک باکس ' یا 'ڈی ٹی ایچ' آیا ہے لوگوں کو پروا ہی نہیں ہوتی کہ ہم نے کون سا چینل لگایا ہے اورکون سا نہیں، کیوں کہ اب لوگ 'نیٹ ' پر 'اپنی مرضی سے جو چاہے دیکھ سکتے ہیں۔'
سٹی کیبلز کے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، 'نیٹ پر نیوز چینلز سے لے کر اسٹریمنگ تک اور فلموں سے لے کر ڈراموں تک سب کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے۔ پولیس کے پاس ہمارے تمام صارفین کا ڈیٹا اور ان کے شناختی کارڈ کی کاپی تک موجود ہے۔ وہ بھارتی چینلز نہ دکھانے کے لئے ہمیں پابند کر چکے ہیں ہم بھی اس پر عمل کرتے ہیں، لیکن نیٹ کی دنیا میں تو سب کچھ بلا روک ٹوک دستیاب ہے۔'
ایک آئی ٹی ایکسپرٹ مبشر اور ایک ٹی وی چینل کی سوشل میڈیا منیجر عظمیٰ نے وی او اے کو بتایا کہ 'یو ٹیوب'،' فیس بک، واٹس ایپ' تھری جی'،' فور جی ،اسمارٹ فون'، 'ویب ٹی وی'،' اسمارٹ ٹی وی کیا کچھ ایجاد نہیں ہو گیا۔ یہ ٹیکنالوجی بھی موبائل کی صورت میں ہر خاص و عام اور بچے، بچے کی پہنچ میں ہے۔ ایسے میں بھارتی فلموں، ڈراموں، پروگراموں، غیر اخلاقی فلموں اور ویڈیوز پر کس طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ رہی بات ٹیکنالوجی کی تو اس کا راستہ روکنا ممکن نہیں۔ یہ ہر انسان کی انفرادی ذمہ داری ہے کہ وہ انٹرٹینمنٹ کے منفی پہلوؤں اور اثرات سے بچے اور مثبت پہلوؤں سے فائدہ اٹھائے۔'
آئی ٹی منسٹری کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں 15 کروڑ 70 لاکھ موبائل فون کے صارفین ہیں۔ 65 ملین تھری جی اور فور جی صارفین ہیں، جب کہ براڈبینڈ کے صارفین کی تعداد 67 ملین ہے۔
قائمہ کمیٹی کی رکن ناز بلوچ کا کہنا ہے کہ ''80 فیصد لوگ اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اب تو 5 جی کے بارے میں بھی سنا ہے کہ وہ جلد پاکستان میں بھی متعارف ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی تفریح کے ذرائع بھی بڑھ جائیں گے لہذا صورت حال کیا ہو گی یہ اندازا لگانا کچھ مشکل نہیں۔ ''
سوشل میڈیا کے ذریعے فلموں اور ڈراموں کا دائرہ بھی بڑھ رہا ہے۔ فائیو جی لانچ ہونے کے بعد صورت حال کیا ہو گی اور جدید ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد اس کے تفریحی دنیا پر منفی اثرات پر کیسے قابو پایا جا سکے گا، اس بارے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ ''فائیو جی متعارف کرانے سے پہلے سوشل میڈیا کے لئے ایک نئی پالیسی بنائی جا رہی ہے۔ وزارت آئی ٹی کی ٹیکنیکل کمیٹی نے اس پر کام جاری رکھا ہوا ہے۔ ایک ایسی پالیسی پر زور دیا جا رہا ہے جس سے دنیا کے ساتھ مل کر بھی چلا جا سکے اور اپنی سماجی اقدار پر بھی سمجھوتا نہ کرنا پڑے۔ پالیسی سخت ہو گی تو ہی ٹیکنالوجی کے منفی اثرات سے بچ جا سکے گا۔ ''