پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں منگلا ڈیم کی صفائی اور بجلی کی پیداوار بڑھانے کے منصوبے کے پہلے مرحلے کے لیے امریکہ نے 7 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز فراہم کرنے سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان کی کمزور معیشت کی ایک بڑی وجہ توانائی کے بحران کو گردانا جاتا ہے اور نواز شریف انتظامیہ نے نا صرف اس پر قابو پانا اپنی ترجیحات کا حصہ قرار دیا بلکہ اہم غیر ملکی شخصیات سے ملاقاتوں میں بھی سرکاری عہدیداروں کے مطابق وزیراعظم اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کی معاونت کی بات کرتے رہے ہیں۔
اس گھمبیر صورتحال کے پیش نظر امریکہ کی طرف سے توانائی کے کئی منصوبوں پر پاکستان سے تعاون کیا جارہا ہے جس میں حال ہی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں منگلا ڈیم کی صفائی اور بجلی کی پیداوار بڑھانے کے منصوبے کے پہلے مرحلے کے لیے 7 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز فراہم کرنے سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر کئی منصوبوں میں امریکی تعاون سے حکام کے مطابق پاکستان میں بجلی کی مجموعی پیداوار میں 1100 میگا واٹ کا اضافہ ہوگا۔
حکومت کی طرف سے صوبہ بلوچستان میں 6600 میگا واٹ کے انرجی پارک کے قیام کے منصوبے کا ماسٹر پلان بھی تیار کرلیا گیا ہے جس کے بعد سرکاری حکام کے بقول کمپنیوں کو وہاں بجلی گھر لگانے کے لیے سرمایہ حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ ملک کی معیشت میں جلد بہتری کا زیادہ دارومدار توانائی کے بحران پر قابو پانے پر ہے۔
’’گیس، تیل اور کوئلے کے ذخائر تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور اسی سے معیشت میں بڑے پیمانے پر بہتری آئے گی۔ ٹیکس تو بڑھانے ہی ہیں۔ ہم 16 ڈالرز کی گیس خریدیں یہ بہتر ہے یا 6 یا 7 ڈالر خرچ کرکے اپنی گیس نکالیں؟‘‘
بلوچستان کے علاقے گڈانی میں مجوزہ انرجی پارک میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے 10 کارخانے لگائے جانے ہیں جس میں حکومت میں شامل عہدیداروں کے بقول چین، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے سرمایہ کاروں نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
تاہم بعض ماہرین اور قانون سازوں کا کہنا ہے کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرتے ہوئے بجلی و گیس کی چوری، متعلقہ اداروں کی غیر فعال کارکردگی اور ترسیل کے ناقص نظام کی وجہ سے خزانے کو سالانہ اربوں روپے کے نقصانات سے بچانے کے لیے حکومت کی کارکردگی بہت سست ہے۔
حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے قانون ساز اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے رکن جنید خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ وہ اس بارے میں حکومتی ترجیحات سمجھنے سے قاصر ہیں۔
’’مجھے سمجھ نہیں پڑتی کہ ان کی ترحیح ہے بھی یا نہیں۔ ہر اجلاس میں کہہ چکا ہوں کہ مالاکنڈ میں سینکڑوں ایسی جگہیں ہیں جہاں کم خرچے سے پانی سے بجلی بن سکتی ہے مگر کوئی نہیں سنتا۔ ایل این جی قطر سے لینے جا رہے ہیں جس سے فی یونٹ بجلی تیل سے بھی مہنگی ہوگی مگر اس کے لیے تیار ہیں۔ افغانستان سے بات ہورہی ہے۔ آپ اپنے یہاں پائپ لائن کی ضمانت نہیں دے سکتے، وہاں کی کون دے گا؟‘‘
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت بجلی کی چوری کے مسئلے کو ’’صرف سیاسی فائدے‘‘ کے لیے استعمال کررہی ہے۔ ’’ہم نے پانچ اجلاس کیے اور وزراء کو کہا کہ آؤ کہ اس بارے میں مل کر لائحہ عمل بناتے ہیں مگرنا تو وفاقی اور نا ہی وزیر مملکت کے پاس کوئی وقت ہے اس کے لیے۔‘‘
بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے 6 ارب 70 کروڑ ڈالرز کا قرضہ حاصل کرنے کے تناظر میں پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ وہ توانائی نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ غیر منصفانہ مراعات ختم کرے گا جس کی وجہ سے ہر سال حکومت کے اخراجات پر مزید بوجھ پڑ جاتا ہے۔
اس گھمبیر صورتحال کے پیش نظر امریکہ کی طرف سے توانائی کے کئی منصوبوں پر پاکستان سے تعاون کیا جارہا ہے جس میں حال ہی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں منگلا ڈیم کی صفائی اور بجلی کی پیداوار بڑھانے کے منصوبے کے پہلے مرحلے کے لیے 7 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز فراہم کرنے سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر کئی منصوبوں میں امریکی تعاون سے حکام کے مطابق پاکستان میں بجلی کی مجموعی پیداوار میں 1100 میگا واٹ کا اضافہ ہوگا۔
حکومت کی طرف سے صوبہ بلوچستان میں 6600 میگا واٹ کے انرجی پارک کے قیام کے منصوبے کا ماسٹر پلان بھی تیار کرلیا گیا ہے جس کے بعد سرکاری حکام کے بقول کمپنیوں کو وہاں بجلی گھر لگانے کے لیے سرمایہ حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔
’’گیس، تیل اور کوئلے کے ذخائر تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور اسی سے معیشت میں بڑے پیمانے پر بہتری آئے گی۔ ٹیکس تو بڑھانے ہی ہیں۔ ہم 16 ڈالرز کی گیس خریدیں یہ بہتر ہے یا 6 یا 7 ڈالر خرچ کرکے اپنی گیس نکالیں؟‘‘
بلوچستان کے علاقے گڈانی میں مجوزہ انرجی پارک میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے 10 کارخانے لگائے جانے ہیں جس میں حکومت میں شامل عہدیداروں کے بقول چین، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے سرمایہ کاروں نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
تاہم بعض ماہرین اور قانون سازوں کا کہنا ہے کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرتے ہوئے بجلی و گیس کی چوری، متعلقہ اداروں کی غیر فعال کارکردگی اور ترسیل کے ناقص نظام کی وجہ سے خزانے کو سالانہ اربوں روپے کے نقصانات سے بچانے کے لیے حکومت کی کارکردگی بہت سست ہے۔
حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے قانون ساز اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے رکن جنید خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ وہ اس بارے میں حکومتی ترجیحات سمجھنے سے قاصر ہیں۔
’’مجھے سمجھ نہیں پڑتی کہ ان کی ترحیح ہے بھی یا نہیں۔ ہر اجلاس میں کہہ چکا ہوں کہ مالاکنڈ میں سینکڑوں ایسی جگہیں ہیں جہاں کم خرچے سے پانی سے بجلی بن سکتی ہے مگر کوئی نہیں سنتا۔ ایل این جی قطر سے لینے جا رہے ہیں جس سے فی یونٹ بجلی تیل سے بھی مہنگی ہوگی مگر اس کے لیے تیار ہیں۔ افغانستان سے بات ہورہی ہے۔ آپ اپنے یہاں پائپ لائن کی ضمانت نہیں دے سکتے، وہاں کی کون دے گا؟‘‘
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت بجلی کی چوری کے مسئلے کو ’’صرف سیاسی فائدے‘‘ کے لیے استعمال کررہی ہے۔ ’’ہم نے پانچ اجلاس کیے اور وزراء کو کہا کہ آؤ کہ اس بارے میں مل کر لائحہ عمل بناتے ہیں مگرنا تو وفاقی اور نا ہی وزیر مملکت کے پاس کوئی وقت ہے اس کے لیے۔‘‘
بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے 6 ارب 70 کروڑ ڈالرز کا قرضہ حاصل کرنے کے تناظر میں پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ وہ توانائی نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ غیر منصفانہ مراعات ختم کرے گا جس کی وجہ سے ہر سال حکومت کے اخراجات پر مزید بوجھ پڑ جاتا ہے۔