وفاقی وزیر صنعت میر ہزار خان بجرانی نے بتایا ہے کہ ملک میں گذشتہ پانچ سالوں کے دوران لگ بھگ 1,600 صنعتی یونٹ بند ہوئے ہیں اور اس کی بڑی وجہ معاشی مشکلات ہیں۔ جمعرات کو ایوان بالا یعنی سینٹ کے اجلاس میں وفاقی وزیر نے بتایا کہ حکومت صنعتوں کے لیے مخصوص موجودہ علاقوں کے ساتھ ساتھ نئے ژون بنانے کی تجاویز پر بھی کام کر رہی ہے۔
لیکن پاکستان میں صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ اقتصادی دشواریوں کے ساتھ ساتھ ملک میں امن و امان کی خراب صورت حال اور توانائی کا بحران بھی کاروباری طبقے کی مشکلات کی بڑی وجوہات ہیں۔ گرمیوں میں بجلی کی طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ کے بعد موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی صنعتی مراکز میں گیس کی بندش کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔
اُدھر وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل نوید قمر نے قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران بتایا کہ سردی میں شدت کے بعد گیس کی طلب اور رسد میں فرق مزید بڑھنے کے باعث گیس کی لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں بھی اضافہ ہوگا۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نہ صرف اندرون ملک گیس کے نئے ذخائر کی تلاش کے منصوبوں پر کام کررہی ہے بلکہ ایران اور ترکمانستان سے گیس درآمد کرنے کے منصوبوں پر عمل درآمد کا کام بھی جاری ہے۔
حال ہی میں ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پاکستان تک گیس پائپ لائن کے منصوبے پر دستخط کیے گئے ہیں جب کہ اس سے قبل ایران سے گیس درآمد کرنے کے منصوبے پر بھی دستخط ہو چکے ہیں۔
اربوں ڈالر مالیت کے یہ دونوں طویل المدتی منصوبے ہیں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ توانائی کے بحران کا شکار ملک پاکستان کے لیے ایران اور ترکمانستان سے گیس کی درآمد کے منصوبے انتہائی اہم ہیں لیکن ان کو عملی جامع پہنانے کے بارے میں شکوک وشبہات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کیوں کہ امریکہ ایران سے گیس درآمد کرنے کے منصوبے کے حق میں نہیں جب کہ افغانستان میں امن و امان کی خراب صورت حال ترکمانستان سے گیس برآمد کرنے کے منصوبے پر سوالیہ نشان ہے۔