بلدیاتی انتخابات کے طریقہ کار پر صوبوں میں اختلاف

فائل فوٹو

پنجاب میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروانے کا فیصلہ ہوا ہے تو خیبرپختونخواہ اور سندھ میں جماعتی بنیادوں پر۔
پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے کم و بیش تمام صوبوں نے قانونی تقاضوں کو مکمل کرتے ہوئے مسودے تیار کرلیے ہیں جوکہ متعلقہ حکام کے بقول آئندہ چند دنوں میں اسمبلیوں سے منظور کروا لیے جائیں گے۔

تمام صوبائی حکومتوں نے گزشتہ ماہ سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ جمہوری نظام کو مستحکم اور عوام کے لیے فائدہ مند بنانے کے لیے جلد بلدیاتی انتخابات کروائیں گی۔

تاہم انتخاب کے طریقہ کار پر صوبوں اور جماعتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ پنجاب میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروانے کا فیصلہ ہوا ہے تو خیبرپختونخواہ اور سندھ میں جماعتی بنیادوں پر۔

حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پنجاب حکومت کے فیصلے کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اسے معاشرے کو غیر سیاسی بنانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخواہ جہاں ان کی جماعت کی حکومت ہے، غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے ذریعے ’’مثالی‘‘ بلدیاتی نظام متعارف کیا جائے گا۔

تاہم پنجاب اسمبلی میں بلدیاتی نظام اور انتخابات سے متعلق قانونی مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی کے چیئرمین چوہدری عبدالرزاق ڈھلوں نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس تاثر کو مسترد کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے بیشتر ترقیاتی ممالک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات سے قائم بلدیاتی نظام کی کامیابی کی وجہ سے حزب اختلاف کی جماعتوں کی مشاورت سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

’’پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، پی ایم ایل این تمام کے امیدوار کھڑے ہوں گے ان کی جماعتوں سے تعلق ہوگا۔ اس سے کسی جماعت کے خلاف دھاندلی کے الزامات نہیں لگیں گے کہ وہاں کے خلاف پولیس یا اساتذہ استعمال ہوئے۔ پھر ایک حلقے میں ایک سے زائد امیدوار کھڑے ہوسکتے ہیں جن کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہو تو ہم نے ورکرز کو آزاد کردیا ہے۔‘‘

انتخابات کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فری ایڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کے سربراہ مدثر رضوی کہتے ہیں کہ تمام صوبوں میں ایک جیسا انتخابی طریقہ کار بلدیاتی نظام کی مضبوطی کا ضامن ہوگا۔

’’اگر مختلف طریقہ کار ہوا تو نا ہی تو نظام اور نا ہی لوگوں کی بحیثیت ووٹر مچیورٹی ہوسکے گی۔ ہم چاہتے ہے کہ زیادہ سے زیادہ عہدوں کے براہ راست انتخابات ہوں کیونکہ اس سے نئی قیادت کے آنے کے مواقع پیدا ہوں گے۔‘‘

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابی طریقہ کار میں فرق کچھ آئینی و قانونی پیچیدگیوں کو جنم دے سکتا ہے جس سے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر بھی ممکن ہے۔