کراچی میں عیدالاضحی کا میلہ سج گیا، ہر طرف رونق اور دلچسپ سماں

کراچی میں عیدالاضحی کا میلہ سج گیا، ہر طرف رونق اور دلچسپ سماں

ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی عیدالاضحی کی تیاریاں جوش و خروش سے جاری ہیں۔ بچے، نوجوان اور بڑوں کی دلچسپی کا مرکز قربانی کے جانورہیں۔ شام ہوئی نہیں کہ نوجوان اپنے اپنے بکرے، بیل اور گائے لے کر گلی محلوں میں انہیں گھمانے نکل پڑتے ہیں۔ ان کے پیچھے پیچھے ڈھیر سارے بچوں کا شور اورجانور کے گلے میں بندھے ہوئے گھنگھرووٴں اور گھنٹیوں کی آوازیں سن کر فلیٹوں میں مقیم لڑکیاں اور خواتین بھی کھڑکیوں اور گیلریوں سے جھانکنے لگتی ہیں۔ یہ منظر ایسا سماں باندھتے ہیں کہ سال بھر یاد رہتے ہیں۔

ادھر شہریوں کی ایک بڑی تعداد روزانہ مویشی منڈیوں کا رخ کرتی نظر آتی ہے۔ قربانی کیلئے جانوروں کی خریداری جاری ہے۔سپر ہائی وے پر قائم مویشی منڈی سمیت دیگر منڈیوں میں میلے کا سا سماں ہے۔ دن کے ساتھ ساتھ رات بھر ہزاروں لوگ منڈیوں میں گھومتے اور خریداری کرتے نظر آ رہے ہیں۔

کراچی میں جانوروں کی سب سے بڑی منڈی سہراب گوٹھ سے کچھ فاصلے پر لگتی ہے ۔ یہاں پہنچنے کے لئے کوئی بس یا پبلک ٹرانسپورٹ براہ راست نہیں جاتی اس لئے یا تو لوگ اپنی موٹر سائیکلوں اور کاروں کے ذریعے جاتے ہیں یا پھر جو گاڑیاں مثلاً سوزوکی وغیرہ جانور چھوڑ کر واپس منڈی جارہی ہوتی ہیں انہی پر سوار ہوکر لوگ منڈی پہنچتے ہیں۔

گزشتہ کئی سالوں سے مویشی منڈیوں میں خریداروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے قربانی کے جانوروں کا’ میلہ حسن‘ بھی منعقد کیا جارہا ہے جہاں جانوروں کی کیٹ واک بھی ہوتی ہے جس سے خریداروں کو زیادہ ورائٹی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مقابلے میں بیل، گائے، بھینس، بکرا، دنبہ اور اونٹ شامل ہوتے ہیں۔

خریداری کے بعد قربانی کے جانوروں کو خوب سجایا جاتا ہے جس پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے ۔ برنس روڈ، لائٹ ہاؤس، کھارادر، صدر، سولجر بازار، رنچھوڑ لائن، نارتھ ناظم آباد، بفرزون، ملیر اور لانڈھی سمیت دیگر تمام علاقوں میں رات بھر گلیوں میں رونقیں رہتی ہیں۔ اس دوران کچھ جانور بے قابو بھی ہو جاتے ہیں اور رسی چھڑا کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں لیکن لوگوں کے رش اور نوجوانوں کے ’جواں حوصلوں‘ کے سبب ان جانوروں کو کچھ ہی فاصلے پر کسی نہ کسی طریقے سے پکڑ ہی لیا جاتا ہے۔

ان دنوں جانوروں کو رکھنے کے لیے فلیٹس اور گنجان آبادی والے علاقوں میں رہائشیوں نے قناتیں لگا کر گلیوں کو بند کیا ہواہے ۔ جانوروں کے آرام کے لئے پکی سڑک پر جہاں انہیں باندھا گیا ہے وہاں ان کے بیٹھنے کے لئے مٹی ڈالی گئی ہے جبکہ روشنی کا بھی خصوصی انتظام کیاگیا ہے ۔ نوجوان راتوں کو جانوروں کی حفاظت کیلئے باری باری جاگ کر ’ڈیوٹی‘ دے رہے ہیں۔ دوستوں کا جمگھٹا لگا ہوا ہے۔ چائے، سگریٹ، لووڈو اور تاش سب چل رہا ہے۔ اس دوران رات بھر کھانے پینے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے ۔

پچھلے دو دن سے محکمہ موسمیات کی جانب سے تیز بارشوں کی پیش گوئی کے بعد کراچی کے باسی فکر مند ہیں کہ اگر بارش ہوگئی تو جانوروں کا کیا ہوگا۔ کہیں سردی کی بارش انہیں کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائے۔ اگرچہ جانوروں کے علاج معالجے کے لیے جگہ جگہ خیموں میں عارضی اسپتال بھی کھولے گئے ہیں مگر بارش کا خوف برقرار ہے۔

عیدالاضحی ۔۔۔ انگنت لوگوں کے لیے ذریعہ معاش

عیدالاضحی کیلئے ملک کے مختلف چھوٹے اور مضافاتی علاقوں میں جانوروں کی پروش کی جاتی ہے اورعید کے موقع پر مویشی منڈیوں کا رخ کیا جاتا ہے جہاں اربوں روپے کی خریدو فروخت ہوتی ہے ۔ بعض گائے اور بیل آٹھ سے دس لاکھ روپے میں جبکہ بکرے ڈیڑھ لاکھ روپے سے بھی زائد میں فروخت ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قربانی سے حاصل ہونے والی کھالیں چمڑہ سازی کی صنعت کو خام مال کی فراہمی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں اور کراچی میں ہزاروں لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں ۔

عام طور پر زیادہ تر شہری قربانوں کے جانور کو ذبح کرنے کے لئے قصابوں کی مدد ہی لیتے ہیں۔ پیشہ ور قصابوں کی پہلے سے ہی بکنگ شروع ہو جاتی ہے ۔ 'وائس آف امریکہ' کے نمائندے نے مختلف علاقوں کے سروے کے بعد جو اعداد و شمار اکھٹا کئے ہیں ان کے مطابق گائے کی قربانی کیلئے اس سال تین اور چار ہزار روپے کا ریٹ مقرر ہے۔ ہلکے یا کم وزن کے جانور تین ہزار جبکہ بھاری جسامت والے جانوروں کی کٹائی کے لئے چار ہزار روپے مقرر ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ریٹ علاقوں کے لحاظ سے طے ہیں۔ مثلاً مذکورہ نرخ متوسط علاقوں کے ہیں جبکہ پوش علاقوں میں یہ ریٹ تقریباً ڈبل ہیں۔

قربانی کا گوشت رکھنے کے لئے بڑی تعداد میں چٹائیوں کی ضرورت پڑتی ہے جو عام طور پر اندرون سندھ میں مقامی سطح پرکھجور کے پتوں سے بنائی جاتی ہے۔گزشتہ سال درمیانے سائز کی ایک چٹائی سو روپے سے ڈیڑھ سو روپے میں فروخت ہورہی تھی مگر اس سال یہ چٹائی پچاس روپے اضافے کے بعد 200روپے اور کہیں کہیں اس سے بھی زیادہ میں فروخت ہورہی ہے۔ مگر چٹائی وغیرہ خریدتے وقت عموماً بارگیننگ کی جاتی ہے لہذا جتنے میں یہ سودا ’پٹ‘ جائے، چٹائی اتنے میں مل جاتی ہے۔

یہی حال ٹوکریوں کا ہے۔ ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ لکڑی کی مڈیوں کی قیمتیں بھی بڑھی ہوئی ہیں۔ گزشتہ سال چھوٹے سائز کی مڈی پونے دو سو سے ڈھائی سو روپے میں فروخت ہورہی تھی جبکہ اس بار اس کی قیمت چار سو روپے سے کم نہیں۔

ادھرچھریوں اوربغدوں کو دھار لگانے والوں نے بھی دام بڑھا دیئے ہیں مگر اس کے باوجود ان کی دکانوں پر شہریوں کا رش ہے۔ نئی چھریوں اور بغدوں کے ریٹ تو خیر ہیں ہی آسمان پر پرانی چھریوں کی دھار کو سیدھا کرنے اور تیز کرنے پربھی پچیس روپے سے 55روپے تک اجرت لی جارہی ہے ۔