دولت مشترکہ کی ترقیاتی تنظیم کامن ویلتھ فاؤنڈیشن نے بھی کہا ہے کہ 2015ء تک پاکستان تعلیم اور صحت سمیت سماجی ترقی کے کسی بھی شعبے میں اقوام متحدہ کے طے کردہ اہداف حاصل کرنہیں پائے گا۔
اسلام آباد —
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً اڑھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں اور ان میں سے ایک بڑی تعداد کو والدین غربت کی وجہ سے اسکول بھیجنے کی بجائے محنت مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔
اسی صورتحال کے پیش نظر حکومت نے حال ہی میں ملک بھر میں ایک مہم شروع کی جس کے تحت تین روز میں پانچ لاکھ بچوں کو اسکولوں میں داخل کرنے کا ہدف رکھا گیا۔
وفاقی سیکرٹری تعلیم و تربیت احمد بخش لہری کے مطابق مختلف علاقوں سے اس متعلق اعداد و شمار حاصل کیے جارہے ہیں تاہم چند اضلاع سے حاصل ہونے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہدف باآسانی پورا ہوجائے گا۔
وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت بلیغ الرحمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نواز شریف حکومت تعلیم کے شعبے میں اقوام متحدہ کے میلینیئم اہداف جلد حاصل کرنے کے لیے ’’سنجیدہ‘‘ ہے اور عزم رکھتی ہے کہ آئندہ پانچ سال میں تعلیم پر اخراجات کی شرح میں دوگنا اضافہ کیا جائے گا۔
’’دور دراز علاقوں میں کئی چھوٹی بستیاں ہیں۔ آپ کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ بچوں کو قریبی علاقوں میں پرائمری اسکولوں کے لیے ٹراسپورٹ فراہم کی جاسکے۔ پھر کئی مدرسے پرائمری تعلیم نہیں دے رہے اور اس کے علاوہ اسکول اور بچے ہیں تو اساتذہ نہیں۔ یہ مشکلات ہیں۔‘‘
حال ہی میں دولت مشترکہ کی ترقیاتی تنظیم کامن ویلتھ فاؤنڈیشن نے بھی کہا ہے کہ 2015ء تک پاکستان تعلیم اور صحت سمیت سماجی ترقی کے کسی بھی شعبے میں اقوام متحدہ کے طے کردہ اہداف حاصل کرنہیں پائے گا۔
تاہم حکومت نے ایک قومی لائحہ عمل تیار کیا ہے جس کے تحت آئندہ تین سال میں 32 لاکھ بچوں کو پرائمری اسکولوں میں داخل کیا جائے گا۔
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ صرف بچوں کو اسکولوں میں داخل کرنے سے تعلیم کے شعبے میں ترقی ممکن نہیں بلکہ ان محرکات پر بھی توجہ کی ضرورت ہے جن سے بچوں کی اسکول چھوڑنے کی غیر معمولی شرح میں کمی آئے۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 30 فیصد بچے پرائمری درجے پر ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔
نیشنل یونیورسٹی فار سائنس و ٹیکنالوجی کے پروفیسر اصغر قادر کہتے ہیں کہ اساتذہ کی کم تعداد، ان کی مناسب تربیت نا ہونا اور نامنا سب تنخواہیں وہ مسائل ہیں جن کے حل کے بغیر تعلیمی نظام میں بہتری نا ممکن ہے۔
’’یہ (حکام) کہتے ہیں کہ تعلیم کے بجٹ میں 4 فیصد اضافہ کیا جائے گا تو وہ کس لیے بچوں کو اسکول لانے کے لیے؟ اساتذہ ہی نہیں۔ جتنے ہیں وہ ہیں بھی بے کار۔ ان کی اہمیت اس سطح پر ہے ہی نہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارے برائے اطفال کے پاکستان میں نمائندے ڈان روہمین حکومت کی حکمت عملی کے بارے میں کہتے ہیں۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کچھ وقت لگے گا مگر یہ درست شروعات ہے ۔اگر پاکستان نے اقتصادی لحاظ سے ترقی کرنی ہے اور ایک متحرک معاشرہ بنانے کی سوچ پائی جاتی ہے تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کے بچے تعلیم یافتہ اور صحت مند ہو۔‘‘
پاکستان اس وقت تعلیم اور صحت پر ملک کی مجموعی پیداوار کا تقریباً تین فیصد خرچ کرتا ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف تعلیم پر یہ شرح چار فیصد تک ہونی چاہیے۔
اسی صورتحال کے پیش نظر حکومت نے حال ہی میں ملک بھر میں ایک مہم شروع کی جس کے تحت تین روز میں پانچ لاکھ بچوں کو اسکولوں میں داخل کرنے کا ہدف رکھا گیا۔
وفاقی سیکرٹری تعلیم و تربیت احمد بخش لہری کے مطابق مختلف علاقوں سے اس متعلق اعداد و شمار حاصل کیے جارہے ہیں تاہم چند اضلاع سے حاصل ہونے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہدف باآسانی پورا ہوجائے گا۔
وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت بلیغ الرحمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نواز شریف حکومت تعلیم کے شعبے میں اقوام متحدہ کے میلینیئم اہداف جلد حاصل کرنے کے لیے ’’سنجیدہ‘‘ ہے اور عزم رکھتی ہے کہ آئندہ پانچ سال میں تعلیم پر اخراجات کی شرح میں دوگنا اضافہ کیا جائے گا۔
’’دور دراز علاقوں میں کئی چھوٹی بستیاں ہیں۔ آپ کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ بچوں کو قریبی علاقوں میں پرائمری اسکولوں کے لیے ٹراسپورٹ فراہم کی جاسکے۔ پھر کئی مدرسے پرائمری تعلیم نہیں دے رہے اور اس کے علاوہ اسکول اور بچے ہیں تو اساتذہ نہیں۔ یہ مشکلات ہیں۔‘‘
حال ہی میں دولت مشترکہ کی ترقیاتی تنظیم کامن ویلتھ فاؤنڈیشن نے بھی کہا ہے کہ 2015ء تک پاکستان تعلیم اور صحت سمیت سماجی ترقی کے کسی بھی شعبے میں اقوام متحدہ کے طے کردہ اہداف حاصل کرنہیں پائے گا۔
تاہم حکومت نے ایک قومی لائحہ عمل تیار کیا ہے جس کے تحت آئندہ تین سال میں 32 لاکھ بچوں کو پرائمری اسکولوں میں داخل کیا جائے گا۔
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ صرف بچوں کو اسکولوں میں داخل کرنے سے تعلیم کے شعبے میں ترقی ممکن نہیں بلکہ ان محرکات پر بھی توجہ کی ضرورت ہے جن سے بچوں کی اسکول چھوڑنے کی غیر معمولی شرح میں کمی آئے۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 30 فیصد بچے پرائمری درجے پر ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔
نیشنل یونیورسٹی فار سائنس و ٹیکنالوجی کے پروفیسر اصغر قادر کہتے ہیں کہ اساتذہ کی کم تعداد، ان کی مناسب تربیت نا ہونا اور نامنا سب تنخواہیں وہ مسائل ہیں جن کے حل کے بغیر تعلیمی نظام میں بہتری نا ممکن ہے۔
’’یہ (حکام) کہتے ہیں کہ تعلیم کے بجٹ میں 4 فیصد اضافہ کیا جائے گا تو وہ کس لیے بچوں کو اسکول لانے کے لیے؟ اساتذہ ہی نہیں۔ جتنے ہیں وہ ہیں بھی بے کار۔ ان کی اہمیت اس سطح پر ہے ہی نہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارے برائے اطفال کے پاکستان میں نمائندے ڈان روہمین حکومت کی حکمت عملی کے بارے میں کہتے ہیں۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کچھ وقت لگے گا مگر یہ درست شروعات ہے ۔اگر پاکستان نے اقتصادی لحاظ سے ترقی کرنی ہے اور ایک متحرک معاشرہ بنانے کی سوچ پائی جاتی ہے تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کے بچے تعلیم یافتہ اور صحت مند ہو۔‘‘
پاکستان اس وقت تعلیم اور صحت پر ملک کی مجموعی پیداوار کا تقریباً تین فیصد خرچ کرتا ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف تعلیم پر یہ شرح چار فیصد تک ہونی چاہیے۔