اسلام آباد —
پاکستان میں خواندگی کی شرح کو بڑھانے کے لیے ’وسیلہ تعلیم‘ نامی ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت اُن غریب خاندانوں کی مالی معاونت کی جائے گی جو اپنے بچوں کو اسکولوں میں تعلیم کے لیے بجھوائیں گے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس 4 سالہ منصوبے کے تحت ملک بھر میں 30 لاکھ بچوں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے تعلیم فراہم کی جائے گی۔
اقوام متحدہ اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 50 لاکھ سے زائد بچے تعلیم اداروں سے باہر ہیں جبکہ خواندگی کی شرح 56 فیصد ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے رواں ہفتے اسلام آباد میں اس نئے منصوبے سے متعلق منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ملک عوام پر سرمایہ کاری کیے بغیر ترقی نہیں کر سکتا اور غربت و شدت پسندی کو شکست دینے کے لیے جہالت کے خلاف لڑنا لازم ہے۔
’’غربت نے بہت سے بچوں کو تعلیم سے دور کر رکھا ہے۔ جہالت اور غربت شدت پسندی کے لیے ایندھن کا کام کرتی ہیں اور ہمیں جہالت سے ضرور لڑنا ہے تاکہ ان مسائل سے نمٹنا جا سکے۔‘‘
ملک کے آئین میں ایک حالیہ ترمیم کے بعد اب حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر تمام بچوں کو مفت تعلیم کی فراہم کرے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیم کے فروغ کے منصوبوں کی کامیابی اور ملک میں شرح
خواندگی بڑھانے کا ہدف شعبہ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ اور اس کے موثر و شفاف خرچ کے یقینی بنائے بغیر ممکن نہیں۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر اے ایچ نئیر کہتے ہیں سرکاری اخراجات میں کمی کر کے بھی تعلیم جیسے سماجی شعبوں کے لیے مختص رقوم میں اضافے کیا جا سکتا ہے۔
’’ہمارے ملک میں بیشتر امیر لوگوں سے ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ترقی پر خرچہ نہیں کیا جا سکتا، یہ کرنا ضروری ہے اور پھر اخراجات میں توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ناقدین کا کہنا ہے اس وقت شعبہ تعلیم کے لیے سالانہ قومی بجٹ میں دو فیصد سے بھی کم رقوم مختص کی جاتی ہیں اور شرح خواندگی میں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کا بجٹ تقریبا 4 فیصد تک بڑھایا جائے۔
اقوام متحدہ کے تعلیم کے لیے متعین ہدف کے مطابق 2015 تک پاکستان کی شرح خواندگی 88 فیصد ہونی چاہیے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس 4 سالہ منصوبے کے تحت ملک بھر میں 30 لاکھ بچوں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے تعلیم فراہم کی جائے گی۔
اقوام متحدہ اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 50 لاکھ سے زائد بچے تعلیم اداروں سے باہر ہیں جبکہ خواندگی کی شرح 56 فیصد ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے رواں ہفتے اسلام آباد میں اس نئے منصوبے سے متعلق منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ملک عوام پر سرمایہ کاری کیے بغیر ترقی نہیں کر سکتا اور غربت و شدت پسندی کو شکست دینے کے لیے جہالت کے خلاف لڑنا لازم ہے۔
’’غربت نے بہت سے بچوں کو تعلیم سے دور کر رکھا ہے۔ جہالت اور غربت شدت پسندی کے لیے ایندھن کا کام کرتی ہیں اور ہمیں جہالت سے ضرور لڑنا ہے تاکہ ان مسائل سے نمٹنا جا سکے۔‘‘
ملک کے آئین میں ایک حالیہ ترمیم کے بعد اب حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر تمام بچوں کو مفت تعلیم کی فراہم کرے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیم کے فروغ کے منصوبوں کی کامیابی اور ملک میں شرح
خواندگی بڑھانے کا ہدف شعبہ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ اور اس کے موثر و شفاف خرچ کے یقینی بنائے بغیر ممکن نہیں۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر اے ایچ نئیر کہتے ہیں سرکاری اخراجات میں کمی کر کے بھی تعلیم جیسے سماجی شعبوں کے لیے مختص رقوم میں اضافے کیا جا سکتا ہے۔
’’ہمارے ملک میں بیشتر امیر لوگوں سے ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ترقی پر خرچہ نہیں کیا جا سکتا، یہ کرنا ضروری ہے اور پھر اخراجات میں توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ناقدین کا کہنا ہے اس وقت شعبہ تعلیم کے لیے سالانہ قومی بجٹ میں دو فیصد سے بھی کم رقوم مختص کی جاتی ہیں اور شرح خواندگی میں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کا بجٹ تقریبا 4 فیصد تک بڑھایا جائے۔
اقوام متحدہ کے تعلیم کے لیے متعین ہدف کے مطابق 2015 تک پاکستان کی شرح خواندگی 88 فیصد ہونی چاہیے۔