بلوچستان میں شعبہ تعلیم کو درپیش خطرات پر تشویش

(فائل فوٹو)

اساتذہ کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں سرکاری عہدے داروں اور مبصرین نے صوبہ بلوچستان میں شعبہ تعلیم کو درپیش سنگین خطرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بدھ کو ملک بھر میں خصوصی تقاریب اور سیمینار منعقد کیے گئے جن میں تعلیم کی اہمیت اور اس کے میعار کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

لیکن ماہرین تعلیم نے ایک بار پھر اس شعبے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر مختص کی گئی غیر مناسب رقوم پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور خاص طور پر بلوچستان میں تشدد کے واقعات کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیوں پر منفی اثرات کے بارے میں تشویش ظاہر کی۔

بلوچستان میں اعلیٰ صوبائی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ سیلاب، بلوچ عسکریت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں اور انتظامی وجوہات کی بنا پر اس وقت بھی بلوچستان کے 30 اضلاع میں تقریباً 350 اسکول بند ہیں جب کہ محکمہ تعلیم کو 3,500 اساتذہ کی کمی کا بھی سامنا ہے۔

حقوق انسانی کی غیر سرکاری تنظیم ایچ آر سی پی کی سربراہ ذہرہ یوسف نے بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی طرف سے شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد کو تشدد کا نشانہ بنانے کی ایک بار پھر مذمت کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبے میں سرگرم بلوچ قوم پرست تنظیموں نے اساتذہ کو بھی سیاسی تنازع کا حصہ بنا لیا ہے۔

’’بلوچ قوم پرست گروہوں کا کہنا ہے کہ یہ (اساتذہ) پنجابی آبادکار ہیں اور ایک طرح سے استحصالی نظام کا حصہ ہیں، مگر ہمیں اس کی مذمت کرنی چاہیئے کیوں کہ اساتذہ جو کئی سالوں سے بلوچستان میں موجود ہیں انھوں نے تو نوجوانوں کو تعلیم دی ہے اور بلوچستان کی ترقی میں ان کا بھی کردار ہے۔‘‘

صوبائی سیکرٹری برائے تعلیم منیر بادینی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان مسائل کا اعتراف کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ حکومت ان پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔

’’ہمارا تہیہ ہے کہ ہم نے کسی اسکول کو بند نہیں کرنا ہے، اور جو اسکول بند ہیں یا اساتذہ کی کمی ہے یا کوئی اور وجہ ہے تو انشا اللہ اس کو ہم دور کریں گےاور اس سلسلے میں ہماری ٹیمیں پہلے ہی مختلف علاقوں میں حالات کا جائزہ لے رہی ہیں۔‘‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں پرائمری سے لے کر میٹرک تک کے 12,000 سے زائد سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جہاں زیر تعلیم تقریباً 10 لاکھ طلبا و طالبات کے لیے محض 45 ہزار اساتذہ دستیاب ہیں۔

صوبے میں گزشتہ تین سالوں کے دوران مشتبہ بلوچ عسکریت پسندوں کے حملوں میں دو درجن سے زائد اساتذہ اور ماہرین تعلیم ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں اساتذہ سلامتی کے خطرات کے باعث اپنا تبادلہ بلوچستان کے نسبتاً پرامن علاقوں اور ملک کے دوسرے حصوں میں کروا چکے ہیں یا اس کوشش میں مصروف ہیں۔

دریں اثنا، عالمی تنظیموں نے کہا ہے کہ پاکستان کو درپیش انتہاپسندی اور دہشت گردی کے چیلنجوں کے تناظر میں اساتذہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے میں امن اور برداشت کا درس دیں۔

یہ بات اقوام متحدہ کی مختلف ذیلی تنظیموں اور عالمی ادارہ برائے محنت ’آئی ایل او‘ نے بدھ کو منائے گئے عالمی یومِ اساتذہ کی مناسبت سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہی ہے۔

بیان میں بتایا گیا ہے کہ معاشرے میں مساوات کے لیے مرد و زن، تمام طبقات اور اقلیتوں کے حقوق میں برابری کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔