پاکستان میں رواں مالی سال دو ہزار سترہ اٹھارہ کی اقتصادی جائزہ رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس کے مطابق شرح نمو 13 سال کی بلند ترین سطح 5.79 فیصد رہی، جبکہ مہنگائی کی شرح 7.89 فیصدسےکم ہوکر 3.8 فیصدپرآگئی ہے۔
اقتصادی سروے نے پاکستاب میں صحت کی سہولیات کا بھانڈہ بھی پھوڑ دیا ہے جس کے مطابق 1 ہزار 580 مریضوں کیلئےصرف ایک بیڈ کی سہولت موجود ہے۔
سروے کے مطابق، پاکستان میں گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ بھی ہوا ہے، جبکہ رواں مالی سال کےابتدائی 6 ماہ میں قرضوں میں 1413 ارب روپے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال اور وزیر اعظم کے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نےمشترکہ پریس کانفرنس میں اقتصادی جائزہ رپورٹ 18-2017 پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقتصادی ترقی کی شرح گزشتہ 13 برسوں میں سب سے زیادہ 5.79 فیصد رہی اور مہنگائی کی شرح 7.89 فیصد سےکم ہو کر 3.8 فیصد پر آگئی ہے۔
مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نےکہا کہ مالی سال 18-2017 کےدوارن زرعی ترقی کی شرح 3.8 فیصد رہی، برآمدات کمزور شعبہ تھا۔ لیکن، پیکیج دینے سے اس میں بہتری آئی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ قرضوں سے بجلی کے منصوبے لگائےجسکے باعث ترقیاتی اخراجات بڑھے ہیں، جبکہ مارچ تک برآمدات میں 13 فیصداضافہ ہوا۔ ہم نےاگلی حکومت کے نئے ترقیاتی منصوبوں کےلیے 100 ارب روپے مختص کر دیے ہیں۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 2013 میں سرمایہ کار ملک چھوڑ کر بیرون ملک جا رہے تھے، کراچی بھتہ خوروں کے ہاتھوں یرغمال تھا لیکن ہم نے اپنے وسائل سے دہشتگردی اور دیگر مسائل پر قابو پایا۔ آج پاکستان ایک محفوظ ملک ہےجہاں امن قائم ہے، ہماری حکومت نےسسٹم میں 11 ہزارمیگاواٹ بجلی داخل کی جسکی وجہ سے بجلی کےبحران میں کمی واقع ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی بحران کا سامنا نہ ہوتا توا قتصادی ترقی کی شرح 6 اعشاریہ ایک فیصد تک ہو سکتی تھی، سیاسی بحرانوں کی وجہ سےبھاری معاشی قیمت ادا کرنی پڑی۔
اقتصادی سروے کےمطابق تھوک اورخوردہ شعبےمیں شرح نمو 7.5 فیصد رہی۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ کےشعبےمیں شرح نمو 3.5 فیصد، مالیات اور انشورنس کے شعبے میں شرح نمو 6.1 فیصد رہی۔
اقتصادی سروے کے مطابق، زرعی شعبےمیں ترقی کی شرح 3.8 فیصد، بڑی فصلوں میں شرح نمو 3.6 فیصد اور دیگر فصلوں میں شرح نمو 3.3 فیصد رہی جبکہ کپاس میں شرح نمو 8.7 فیصد، لائیو اسٹاک میں شرح نمو 3.8 فیصد اور ماہی گیری میں شرح نمو 1.6 فیصد رہی۔
سروے کے اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ معدنیات میں شرح نمو 3 فیصد، پیداواری شعبےکی شرح نمو 6.2 فیصد،بڑےصنعتی شعبےکی شرح نمو 6.1 فیصد اور چھوٹے صنعتی شعبےکی شرح نمو 8.2 فیصد رہی، مواصلات کےشعبےمیں شرح نمو 9.1 فیصداورخدمات کےشعبےمیں شرح نمو 6.4 فیصد رہی۔
اقتصادی سروے میں قرضوں سےمتعلق اعداد و شمار کے مطابق چھ ماہ میں بیرونی قرضوں میں 830 ارب، اندرونی قرضوں میں 582 ارب کا اضافہ ہوا، انٹرنیشنل مارکیٹ میں بانڈز کے ذریعے 2.5 ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا، دسمبر 2017 تک مجموعی قرضے 22819 ارب روپےتک پہنچ گئے، سروے کے مطابق 2013 میں اندرونی و بیرونی قرضوں کا حجم 14318 ارب روپے تھا، 2013 سے 2017 تک قرضوں میں 8501 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
سروے میں بتایا گیا ہے پاکستان میں گدھوں کی تعداد بڑھ کر 53 لاکھ ہوگئی ہے، جبکہ گھوڑوں اور خچر کی تعداد میں کوئی اضافہ نہ ہوا اور پاکستان میں 40 ہزار گھوڑے، 20 ہزار خچر ہیں۔
سروے کے مطابق، جولائی تا مارچ تجارتی خسارہ 27.2 ارب ڈالر رہا،جولائی تا مارچ درآمدات 44.3 ارب ڈالر رہیں جبکہ برآمدات 17.07 ارب ڈالر رہیں، جولائی تا مارچ ترسیلات زر 14.6 ارب ڈالر رہیں اور اسی عرصےمیں بیرونی سرمایا کاری 2 ارب 9 کروڑ ڈالر رہی۔
سروے میں بتایا گیا ہے ملک میں صحت کا شعبہ ابتری کا شکار ہے جس کے مطابق ملک میں 957 افراد کیلئےصرف ایک ڈاکٹر جبکہ 9730 مریضوں کیلئےدانتوں کا ایک ڈاکٹر ہے۔ سروے میں اسپتالوں کی تعداد 1211، بنیادی مراکز صحت 5508 اور دیہی مراکز صحت 676 بتائے گئے ہیں، پاکستان میں ڈاکٹروں کی مجموعی تعداد 2 لاکھ 8 ہزار 7 ہے جبکہ ایک لاکھ 3 ہزار 777 نرسیں، دانتوں کے ڈاکٹر صرف 20 ہزار 463 ہیں۔
ادھر حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے دور حکومت کا آخری بجٹ کل جمعہ کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے جا رہی ہےجس کاحجم 55 کھرب روپے سے زیادہ ہوگا۔
بجٹ میں پینشن اور تنخواہوں میں 15 فیصد تک اضافےکی تجویز جبکہ عوامی فلاح کے منصوبوں پر وفاق نے 1 ہزار ارب روپے سے زائدخرچ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
مختلف شعبوں پر عوام کو ریلیف دینےکی خاطر سرکار اپنےپلے سے 220 ارب روپے سبسڈی کی مد میں آئندہ مالی سال ادا کرے گی۔
ںئے مالی سال وفاق صوبوں کو 2565 ارب روپے منتقل کرنےکی تجویز ہے۔
اس کے علاوہ آمدن و اخرجات کا فرق بجٹ خسارےکی صورت میں مالی سال 19-2018 کےدوران 1870 ارب روپے تک محدود کرنےکی کوشش کی جائےگی۔
اس بجٹ کی منظوری کے لئے ن لیگ کےاراکین قومی اسمبلی کی ایوان میں حاضری اور بجٹ کی منظوری حکومت کے لئے بڑا چیلنج بن گئی ہے اور حکومت نے اس حوالےسے پیپلزپارٹی سےتعاون بھی مانگ لیا ہے،جبکہ ن لیگ کےمنحرف اراکین سےبھی کہا ہےکہ وہ بجٹ منظور کروانےمیں تعاون کریں جبکہ تحریک انصاف نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی صورت یہ بجٹ منظور نہیں ہونے دے گی، کیونکہ اس حکومت کو ایک سال کا بجٹ پیش کرنےکا اختیار ہی نہیں ہے۔