پاکستان: زلزلے سے 11 ہزار گھر، 147 اسکول تباہ

شمال مغرب میں بعد از زلزلہ جھٹکوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور بدھ کی صبح بھی سوات اور ملحقہ علاقوں میں چار شدت کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔

پاکستان میں دو روز قبل آنے والے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں جب کہ بدھ کو حکام نے زلزلے سے ہونے والی ہلاکتوں میں اضافے کا بھی بتایا ہے۔

پیر کو 7.5 شدت کے زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد 260 سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ لگ بھگ 1700 زخمیوں میں سے بیشتر اب بھی مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

زلزلے سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانے کا کام بھی جاری ہے اور اب تک کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 11 ہزار سے زائد مکانات کو اس میں جزوی یا مکمل طور پر نقصان پہنچا جب کہ صرف خیبرپختونخواہ میں حکام نے 147 اسکولوں کے متاثر ہونے کا بتایا ہے۔

زلزلے کے بعد امدادی کارروائیاں فوراً شروع کر دی گئی تھیں جنہیں منگل کو مزید تیز کر دیا گیا۔ متاثرہ علاقوں میں خیمے، کمبل، چٹائیاں، خوراک طبی امداد پہنچائی جا رہی ہے جب کہ شدید متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقام پر بھی منتقل کیا گیا ہے۔ لیکن اب بھی بعض علاقوں سے امدادی اشیا کے تاخیر سے پہنچنے کی شکایت سامنے آ رہی ہے۔

شمال مغربی خطے میں بعد از زلزلہ جھٹکوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور بدھ کی صبح بھی سوات اور ملحقہ علاقوں میں چار شدت کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔

وزیراعظم نواز شریف نے بدھ کو دوسرے روز بھی صوبہ خیبر پختونخواہ کا دورہ کیا اور امداد و بحالی کے کاموں سے متعلق امور کا جائزہ لیا۔

اس موقع پر انھوں نے جانی و مالی طور پر متاثر ہونے والوں کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی طرف سے مشترکہ طور پر مالی معاونت کا اعلان بھی کیا جس کے مطابق مرنے والوں کے لواحقین کو چھ لاکھ روپے فی کس، زخمی ہونے والوں کے لیے ایک، ایک لاکھ روپے جب کہ مکمل طور پر تباہ ہونے والے مکان کے لیے دو اور جزوی متاثرہ مکان کے لیے ایک لاکھ روپے دیے جائیں گے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ معاوضوں کی ادائیگی آئندہ ہفتے شروع ہو جائے گی اور یہ سلسلہ ایک ہفتے کے دوران ہی ختم کر لیا جائے گا۔

انھوں نے اس تاثر اور تنقید کو مسترد کیا کہ زلزلے کے بعد امدادی سرگرمیاں قدرے تاخیر سے شروع ہوئیں۔

"پچھلے اس طرح کی ناگہانی واقعات کو سامنے رکھیں تو میں سمجھتا ہوں کہ بڑی تیزی سے سب نے اپنے فرائض کو انجام دیا ہے مزید تیزی لانے کی بھی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ ہمیں احساس ہے کہ کئی جگہوں پر لوگ جن کے مکانات گر گئے ہیں وہ کھلی فضا میں بیٹھے ہوں گے لیکن آج شام تک مجھے امید ہے کہ ہر جگہ سامان پہنچ چکا ہوگا اور کوئی رہ جائے گا تو کل مکمل طور پر ہر جگہ پہنچ جائے گا۔"

امدادی سرگرمیوں میں پاکستانی فوج کے علاوہ مختلف غیر سرکاری تنظیمیں بھی بھرپور حصہ لے رہی ہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ اپنے وسائل ہی سے زلزلہ متاثرین کی مدد اور بحالی کا کام مکمل کرے گی۔

اس زلزلے کا مرکز افغانستان کے مشرقی صوبے بدخشاں میں سلسلہ کوہ ہندوکش میں تھا اور اس کے جھٹکے پاکستان کے وفاقی دارالحکومت سمیت صوبہ پنجاب میں بھی محسوس کیے گئے۔