زلزلہ زدہ اسکول تعمیر نو کے منتظر

  • روشن مغل

مظفر آباد کا ایک خیمہ اسکول

ہلاکت خیز زلزلے کے سات سال بعد بھی متاثرہ علاقوں میں لگ بھگ تین لاکھ بچے خیمہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں
آٹھ اکتوبر 2005ء کو آنے والے ہلاکت خیز زلزلے کے سات سال بعد بھی متاثرہ علاقوں میں لگ بھگ تین لاکھ بچے خیمہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں اور متعلقہ حکام کے مطابق فنڈز کی کمی یا عدم دستیابی کے باعث تباہ شدہ اسکولوں کی تعمیر نو کے بارے میں کوئی حتمی مدت نہیں بتائی جاسکتی۔

7.6 شدت کے زلزلے سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور شمال مغربی علاقوں میں لگ بھگ 75 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں اسکول کی عمارتیں منہدم ہونے سے ملبے تلے دب کر ہلاک ہونے والے بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

زلزلے سے بحالی و تعمیر نو کے وفاقی ادارے ’ایرا‘ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے دی جانے والی امداد سے 5751 تعلیمی ادارے تعمیر کیے جانے تھے لیکن اب تک صرف 2390 ہی مکمل ہوسکے ہیں۔


زیر تعمیر کا ایک اسکول تکمیل کا منتظر

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بحالی و تعمیر نو کے ادارے ’سیرا‘ کے عہدیدار فنڈز کی کم یابی کو اب تک اسکولوں اور دیگر بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر میں تاخیر کی وجہ بتاتے ہیں۔

سیرا کے سربراہ عبدالرحیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 2800 میں سے اب تک 1078 اسکول تعمیر کیے جاسکیں ہیں جب کہ 1714 ابھی تک زیر تعمیر ہیں۔ ان کے بقول اگر بروقت فنڈز مہیا کردیے جائیں تو دو سال میں بقیہ اسکولوں کی تعمیر مکمل ہوسکتی ہے۔

پاکستانی کشمیر میں فنڈز کی کمی کے شکار سینکڑوں اسکولوں میں دارالحکومت مظفرآباد کے کئی اسکول بھی شامل ہیں جہاں طلبا خیموں یا کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

خیموں میں قائم لڑکیوں کے ایک اسکول کی معلمہ نجمہ سلطان نے بتایا کہ خیموں کی حالت بھی مخدوش ہوتی جارہی ہے اور موسمی حالات سے انھیں اور طلبا کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


’’تعلیم کا بہت حرج ہوتا ہے، کوئی سہولت ہی نہیں۔ بارش ہو تو نہ بچے بیٹھ سکتے ہیں اور نہ اساتذہ کے بیٹھنے کی کوئی جگہ ہوتی ہے۔ گرمیوں میں صورتحال ایسی ہی ہوتی ہے۔‘‘

دریں اثناء پیر کے روز زلزلے کی ساتویں برسی کے موقع پر ہلاک ہونے والوں کے ایصال ثواب کے لیے مخلتف دعائیہ تقاریب کا اہتمام کیا گیا جہاں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔