پاکستان کے وزیر اعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی نے کمیٹی کو بتایا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ’ٹی ٹی پی‘ کا امیر حکیم اللہ محسود امریکہ کو انتہائی مطلوب تھا اور اسی بنا پر اُسے رواں ماہ نشانہ بنایا گیا۔
اسلام آباد —
پاکستان کے اعلٰی ترین سفارتی عہدیدار کے بقول امریکہ نے یقین دہانی کروائی ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی کوششوں کے دوران مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف کوئی ڈرون حملہ نہیں کیا جائے گا۔
پاکستانی وزیرِ اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و اُمور خارجہ سرتاج عزیز کی طرف سے یہ انکشاف پارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے بدھ کو اسلام آباد میں ہوئے اجلاس میں کیا گیا، جس میں پاکستانی وزیرِ اعظم کے حالیہ دورہِ امریکہ کا بھی جائزہ لیا گیا۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق سرتاج عزیز نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ امریکہ کو مطلع کیا جا چکا ہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں ہوئے ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے اُس وقت کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے مجوزہ مذاکراتی عمل میں خلل پڑا۔
’’امریکہ نے یقین دہانی کروائی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران وہ ڈرون حملے نہیں کرے گا۔‘‘
سرتاج عزیز کے اس بیان کی مزید تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔
قائمہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر حاجی محمد عدیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سرتاج عزیز کے بیان کو مبہم قرار دیا۔
حاجی عدیل کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کے مشیر نے امریکی یقین دہانی سے متعلق بیان تو دیا لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ امریکہ کا موقف ہے کہ وہ مطلوب شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔
’’میرا خیال ہے کہ میاں (نواز شریف) صاحب نے جو سرتاج عزیز سے کہا، اس (بات) کو بیان کرنے میں کوئی کمی، فرق آ گیا ہے ... اُنھوں نے کہا تو ہے لیکن ان کا بیان بھی کچھ واضح نہیں۔‘‘
وزیرِ اعظم نواز شریف نے گزشتہ ماہ دورہِ واشنگٹن میں امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ بات چیت میں متنازع ڈرون حملوں کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا۔
پاک افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے مرکزی قصبے میران شاہ کے مضافات میں یکم نومبر کو ہوئے ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود اپنے کم از کم تین ساتھیوں کے ہمراہ ہلاک ہو گیا تھا۔
حکومتِ پاکستان نے اس کارروائی کو امن مذاکرات پر براہ راست حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی تھی۔ واشنگٹن میں حکام نے ڈرون حملے کی تصدیق تو نہیں کی، مگر یہ ضرور واضح کیا گیا کہ حکیم اللہ محسود امریکہ کو بھی مطلوب تھا۔ امریکہ نے طالبان رہنما کے سر کی قیمت 50 لاکھ ڈالر مقرر کر رکھی تھی۔
پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان کو طالبان کے ساتھ مجوزہ مذاکرات کے عمل کا نگران مقرر کیا گیا ہے۔ چودھری نثار نے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ مستقبل میں طالبان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ اُس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک ڈرون حملے رک نہیں جاتے۔
طالبان نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سوات سے تعلق رکھنے والے سخت گیر شدت پسند کمانڈر ملا فضل اللہ کو اپنی تحریک کا نیا سربراہ منتخب کیا۔ اطلاعات کے مطابق فضل اللہ نے ماضی میں بھی امن مذاکرات کی مخالفت کی تھی، جب کہ طالبان کی قیادت سنبھالنے کے بعد شدت پسندوں کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ اُن کا بات چیت کے عمل میں شمولیت کا کوئی ارادہ نہیں۔
قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کا متنازع معاملہ حالیہ ہفتوں میں بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا رہا، جس کی اہم وجوہات میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی اور حقوقِ انسانی سے متعلق سرگرم تنظیموں کی وہ رپورٹیں ہیں جن میں ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف وزری کا ذکر کیا گیا۔
پاکستانی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ ملکی نمائندے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے سفارت کاروں سے ملاقاتیں کر کے ڈرون حملوں کی فوری بندش پر زور دیں گے۔
پاکستان ڈرون حملوں کو علاقائی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف وزری گردانتا ہے، جب کہ امریکی حکام کا ماننا ہے کہ میزائلوں سے لیس بغیر ہوا باز کے طیارے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اہم ہتھیار ثابت ہو رہے ہیں۔
پاکستانی وزیرِ اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و اُمور خارجہ سرتاج عزیز کی طرف سے یہ انکشاف پارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے بدھ کو اسلام آباد میں ہوئے اجلاس میں کیا گیا، جس میں پاکستانی وزیرِ اعظم کے حالیہ دورہِ امریکہ کا بھی جائزہ لیا گیا۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق سرتاج عزیز نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ امریکہ کو مطلع کیا جا چکا ہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں ہوئے ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے اُس وقت کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے مجوزہ مذاکراتی عمل میں خلل پڑا۔
’’امریکہ نے یقین دہانی کروائی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران وہ ڈرون حملے نہیں کرے گا۔‘‘
سرتاج عزیز کے اس بیان کی مزید تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔
قائمہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر حاجی محمد عدیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سرتاج عزیز کے بیان کو مبہم قرار دیا۔
حاجی عدیل کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کے مشیر نے امریکی یقین دہانی سے متعلق بیان تو دیا لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ امریکہ کا موقف ہے کہ وہ مطلوب شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔
’’میرا خیال ہے کہ میاں (نواز شریف) صاحب نے جو سرتاج عزیز سے کہا، اس (بات) کو بیان کرنے میں کوئی کمی، فرق آ گیا ہے ... اُنھوں نے کہا تو ہے لیکن ان کا بیان بھی کچھ واضح نہیں۔‘‘
وزیرِ اعظم نواز شریف نے گزشتہ ماہ دورہِ واشنگٹن میں امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ بات چیت میں متنازع ڈرون حملوں کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا۔
پاک افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے مرکزی قصبے میران شاہ کے مضافات میں یکم نومبر کو ہوئے ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود اپنے کم از کم تین ساتھیوں کے ہمراہ ہلاک ہو گیا تھا۔
حکومتِ پاکستان نے اس کارروائی کو امن مذاکرات پر براہ راست حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی تھی۔ واشنگٹن میں حکام نے ڈرون حملے کی تصدیق تو نہیں کی، مگر یہ ضرور واضح کیا گیا کہ حکیم اللہ محسود امریکہ کو بھی مطلوب تھا۔ امریکہ نے طالبان رہنما کے سر کی قیمت 50 لاکھ ڈالر مقرر کر رکھی تھی۔
پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان کو طالبان کے ساتھ مجوزہ مذاکرات کے عمل کا نگران مقرر کیا گیا ہے۔ چودھری نثار نے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ مستقبل میں طالبان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ اُس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک ڈرون حملے رک نہیں جاتے۔
طالبان نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سوات سے تعلق رکھنے والے سخت گیر شدت پسند کمانڈر ملا فضل اللہ کو اپنی تحریک کا نیا سربراہ منتخب کیا۔ اطلاعات کے مطابق فضل اللہ نے ماضی میں بھی امن مذاکرات کی مخالفت کی تھی، جب کہ طالبان کی قیادت سنبھالنے کے بعد شدت پسندوں کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ اُن کا بات چیت کے عمل میں شمولیت کا کوئی ارادہ نہیں۔
قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کا متنازع معاملہ حالیہ ہفتوں میں بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا رہا، جس کی اہم وجوہات میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی اور حقوقِ انسانی سے متعلق سرگرم تنظیموں کی وہ رپورٹیں ہیں جن میں ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف وزری کا ذکر کیا گیا۔
پاکستانی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ ملکی نمائندے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے سفارت کاروں سے ملاقاتیں کر کے ڈرون حملوں کی فوری بندش پر زور دیں گے۔
پاکستان ڈرون حملوں کو علاقائی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف وزری گردانتا ہے، جب کہ امریکی حکام کا ماننا ہے کہ میزائلوں سے لیس بغیر ہوا باز کے طیارے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اہم ہتھیار ثابت ہو رہے ہیں۔