وزیرستان ڈرون حملے میں 18 ہلاک

دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ ڈرون حملوں کا ایک ایسا حل تلاش کر لیا جائے گا جو پاکستان اور امریکہ دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔
پاکستان کے قبائلی خطے وزیرستان میں جمعہ کو عسکریت پسندوں کے تین مراکز پر ڈرون طیاروں سے داغے گئے میزائلوں سے کم از کم 18 مشتبہ شدت پسند ہلاک ہو گئے۔

مقامی حکام اور قبائلی ذرائع کے مطابق شمالی اور جنوبی وزیرستان کو تقسیم کرنے والی وادی شوال میں امریکی میزائل حملوں کا ہدف عسکریت پسندوں کے زیر استعمال ایک دوسرے سے جڑے تین مکانات تھے۔

اس حملے میں قبائلی ذرائع نے فوری طور پر کم از کم اٹھارہ جنگجوؤں کی ہلاکت کی اطلاعات دی ہیں جب کہ عسکریت پسندوں نے متعدد زخمیوں کو نا معلوم مقام کی طرف منتقل کر دیا جن میں بعض کی حالت تشویشناک بتائی گئی۔

افغان سرحد سے ملحقہ وزیرستان کے قبائلی خطے میں عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اب تک پانچ ڈرون حملے کیے جا چکے ہیں جن میں تین درجن سے زائد مشتبہ جنگجوؤں کی ہلاکت کی اطلاعات ملی ہیں لیکن اس دور دراز علاقے تک صحافیوں کو محدود رسائی کے باعث جانی نقصانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً نا ممکن ہے۔

ایک روز قبل پاکستانی وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار کو طلب کر کے ڈرون حملوں پر باضابطہ احتجاج کرتے ہوئے ان کارروائیوں کو نا قابل قبول قرار دیا تھا۔

ترجمان معظم احمد خان


دفتر خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے جمعہ کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب میں بھی پاکستان کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملے نا صرف ملکی سالمیت بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہیں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ حکومت پاکستان اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے امریکی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔

’’اس ضمن میں مختلف تجاویز زیر غور ہیں اور اُمید ہے کہ اس مسئلے کا ایک ایسا حل تلاش کر لیا جائے گا جو پاکستان اور امریکہ دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔‘‘

تاہم انھوں نے زیر غور تجاویز کی مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

امریکی حکام ڈرون حملوں کو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ایک موثر ہتھیار قرار دیتے ہیں جس نے القاعدہ اور اس سے منسلک تنظیموں کو کمزور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔