طیبہ کو ’سویٹ ہوم‘ میں نفسیاتی مدد بھی حاصل ہو گی

عدالت نے فریقین کے درمیان صلح سے متعلق تمام ریکارڈ سیل کرنے کا حکم دیا ہے۔

اسلام آباد کے ایک ایڈیشنل سیشن جج کے گھر پر کام کرنے والی کم عمر ملازمہ طیبہ کو سپریم کورٹ کے حکم پر والدین کی ساتھ بجھوانے کی بجائے بچوں کے لیے قائم سرکاری ادارے ’سویٹ ہوم‘ بھیج دیا گیا۔

طیبہ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کے گھر پر ملازمہ تھیں جہاں مبینہ طور پر اُنھیں ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کم عمر گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کے واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے لڑکی کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس نے وفاقی دارالحکومت کی پولیس کو حکم دیا کہ وہ اس بارے میں تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کرے تاکہ طیبہ پر تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک سرگرم کارکن ثمر من اللہ بھی بدھ کو عدالت میں موجود تھیں، اُنھوں نے سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چیف جسٹس نے اس معاملے کی تمام پہلوؤں کی جانچ کا حکم دیا ہے۔

’’طیبہ کو ابھی عارضی طور پر سویٹ ہوم کا جو ادارہ ہے وہاں بھیجا گیا ہے، جس نفسیاتی دباؤ سے وہ گزری ہے اُس کے لیے بھی اُسے مدد فراہم کی جائے گی۔‘‘

بدھ کو جب عدالت میں از خود نوٹس کی سماعت ہوئی تو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم دو رکنی بینچ کے سامنے طیبہ کے والدین کو بھی پیش کیا گیا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ تین مزید افراد نے بھی طیبہ کے والدین ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔

عدالت کے سامنے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ بھی پیش کی گئی جس کے مطابق طیبہ کے جسم پر مختلف نوعیت کے زخموں کے 22 نشان تھے لیکن عدالت نے میڈیکل رپورٹ کے بارے میں کہا کہ اس میں یہ تعین نہیں کیا گیا کہ طیبہ کو یہ زخم کب آئے۔

طیبہ پر مبینہ تشدد کے الزام پر ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی خان کی اہلیہ کے خلاف درج مقدمے میں اب اُن کے خلاف انسانی سمگلنگ کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ ایڈیشنل جج کی اہلیہ نے عبوری ضمانت کروا رکھی ہے۔

گزشتہ ہفتے طیبہ کے والد نے وفاقی دارالحکومت کی ایک ذیلی عدالت میں ایک بیان حلفی جمع کروایا تھا جس میں اُنھوں نے اپنی بیٹی پر مبینہ تشدد کی ملزمہ کو معاف کر دیا تھا۔

لیکن بدھ کو طیبہ کے والد نے کہا کہ اُنھوں نے جب عدالت میں بیان حلفی جمع کروایا، اُس کے بعد ہی اُنھیں اپنی بیٹی سے ملنے دیا گیا تھا۔

عدالت نے فریقین کے درمیان صلح سے متعلق تمام ریکارڈ سیل کرنے کا حکم دیا ہے۔

اس معاملے کی آئندہ سماعت اب 18 جنوری کو ہو گی۔

کم سن گھریلو ملازمہ طیبہ پر مبینہ تشدد کا معاملہ اس وقت ملک میں ایک بڑا موضوع بن گیا جب اس لڑکی کی تصاویر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سامنے آئیں جس میں اُس کے چہرے اور ہاتھ پر تشدد کے نشان نمایاں تھے۔

ثمر من اللہ نے کہا کہ بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات کا خاتمہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ایسے واقعات میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔

’’جب تک ذمہ داروں کو سزا نہیں ملے گی، تب تک اس طرح کے واقعات ختم نہیں ہوں گے۔‘‘

انسانی حقوق اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ جس طرح طیبہ پر مبینہ تشدد کا معاملہ اجاگر ہوا ہے اب اس کو با آسانی دبانا ممکن نہیں ہو گا۔

ملک کی سپریم کورٹ کی طرف سے کم عمر گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کے واقعہ کا از خود نوٹس لینے کو عمومی طور پر سراہا جا رہا ہے اور اس توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس سے کم عمر بچوں سے مشقت کروانے اور اُنھیں تشدد کا نشانہ بنانے سے متعلق حقائق سامنے آئیں گے۔