پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت کے لیے ان سفارشات کو اپنی’’بائبل‘‘ سمجھتے ہیں جو ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔
حکومتِ پاکستان نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے پارلیمان کی سفارشات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے منگل کو اسلام آباد میں قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کو امریکہ اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی تازہ ترین صورت حال سےآگاہ کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی قرار داد کے عین مطابق دوطرفہ تعلقات پر پیش رفت کی جا رہی ہے۔
’’ہم خارجہ پالیسی پر عمل درآمد کرتے وقت ان (سفارشات) کو اپنی بائبل سمجھتے ہیں، یہ ہماری رہنمائی کرتی ہے۔‘‘
حنا ربانی کھر نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرت ایک جاری عمل ہے اور اس سلسلے میں ٹوکیو کانفرنس کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کے ساتھ ان کی ایک طویل ملاقات ہوئی جب کہ مستقبل میں مزید ایسی ملاقاتیں متوقع ہیں اور پاکستان کی ’’سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے نمائندے بھی جلد امریکہ کا دورہ کریں گے۔
پاکستانی وزیر خارجہ کا اشارہ بظاہر فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیراسلام کے آئندہ چند دنوں میں متوقع دورہ واشنگٹن کی طرف تھا جس میں اطلاعات کے مطابق وہ امریکی حکام سے ملاقاتوں میں ڈرون حملوں کا معاملہ بھی اٹھائیں گے۔
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ ڈرون حملوں پر پاکستان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
’’انسداد دہشت گردی کے لیے ایسے ہتھیار استعمال کرنے ہوں گے جو دونوں ملکوں کے لیے قابل قبول ہوں۔ کوئی بھی ایسی چیز جو غیر قانونی اور (ان کوششوں کے لیے) نقصان دہ ہو اُس کی اجازت ہرگز نہیں دینی چاہیئے۔‘‘
حنا ربانی کھر نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں اعتماد کی بحالی موجودہ حکومت کی ایک مستقل پالیسی رہی ہے تاکہ ماضی کی تلخیوں اور پیچیدگیوں کو بھلا کر برابری کی بنیاد پر ایسے روابط استوار کیے جائیں جو دو خودمختار ریاستوں کے درمیان ہونے چاہیئں۔
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کی کوششوں کی بدولت باہمی اعتماد کی فضا بہتر ہوئی ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ تاثر ہرگز درست نہیں کہ افغانستان میں ان کے ملک کا کوئی من پسند دھڑا ہے یا وہ کسی ایک گروپ کو فروغ دے رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان ایسی پالیسی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور اس کے لیے سب افغان برابر ہیں۔
وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے منگل کو اسلام آباد میں قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کو امریکہ اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی تازہ ترین صورت حال سےآگاہ کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی قرار داد کے عین مطابق دوطرفہ تعلقات پر پیش رفت کی جا رہی ہے۔
’’ہم خارجہ پالیسی پر عمل درآمد کرتے وقت ان (سفارشات) کو اپنی بائبل سمجھتے ہیں، یہ ہماری رہنمائی کرتی ہے۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
حنا ربانی کھر نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرت ایک جاری عمل ہے اور اس سلسلے میں ٹوکیو کانفرنس کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کے ساتھ ان کی ایک طویل ملاقات ہوئی جب کہ مستقبل میں مزید ایسی ملاقاتیں متوقع ہیں اور پاکستان کی ’’سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے نمائندے بھی جلد امریکہ کا دورہ کریں گے۔
ہم خارجہ پالیسی پر عمل درآمد کرتے وقت ان (سفارشات) کو اپنی بائبل سمجھتے ہیں، یہ ہماری رہنمائی کرتی ہے۔حنا ربانی کھر
پاکستانی وزیر خارجہ کا اشارہ بظاہر فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیراسلام کے آئندہ چند دنوں میں متوقع دورہ واشنگٹن کی طرف تھا جس میں اطلاعات کے مطابق وہ امریکی حکام سے ملاقاتوں میں ڈرون حملوں کا معاملہ بھی اٹھائیں گے۔
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ ڈرون حملوں پر پاکستان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
’’انسداد دہشت گردی کے لیے ایسے ہتھیار استعمال کرنے ہوں گے جو دونوں ملکوں کے لیے قابل قبول ہوں۔ کوئی بھی ایسی چیز جو غیر قانونی اور (ان کوششوں کے لیے) نقصان دہ ہو اُس کی اجازت ہرگز نہیں دینی چاہیئے۔‘‘
حنا ربانی کھر نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں اعتماد کی بحالی موجودہ حکومت کی ایک مستقل پالیسی رہی ہے تاکہ ماضی کی تلخیوں اور پیچیدگیوں کو بھلا کر برابری کی بنیاد پر ایسے روابط استوار کیے جائیں جو دو خودمختار ریاستوں کے درمیان ہونے چاہیئں۔
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کی کوششوں کی بدولت باہمی اعتماد کی فضا بہتر ہوئی ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ تاثر ہرگز درست نہیں کہ افغانستان میں ان کے ملک کا کوئی من پسند دھڑا ہے یا وہ کسی ایک گروپ کو فروغ دے رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان ایسی پالیسی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور اس کے لیے سب افغان برابر ہیں۔