ذیابیطس کے مریضوں میں سالانہ دس فیصد اضافہ

ذیابیطس کے مریضوں میں سالانہ دس فیصد اضافہ

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ڈائبٹیزاینڈ اینڈوکرینولوجی کے جائزے کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس یا شوگر کے مریضوں کی تعداد میں ہر سال دس فیصد اضافہ ہو رہا ہے جسے ماہرین نہایت تیز رفتاراور پریشان کن قرار دے رہے ہیں۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی سے وابستہ سرکاری ادارے کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے ایک مریض کے علاج معالجے پر ہرسال اوسطاً صرف 24 ڈالر خرچ ہو رہے ہیں جو سوڈان، نائیجریا ، افغانستان اور بنگلہ دیش سے بھی کم ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر زمان شیخ نے کہا کہ ذیابیطس ایک ایسی خطرناک بیماری ہے جو دل اور گردوں کے امراض کے علاوہ ہائی بلڈ پریشر یعنی بلند فشار خون کا بھی باعث بنتی ہے اور ان پیچیدگیوں کی وجہ سے سالانہ 35 ہزار سے زیادہ مرد اور 50 ہزار سے زیادہ خواتین ہلاک ہو رہی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ خواتین کی شرح اموات زیادہ ہونے کی وجہ بظاہر یہ ہے کہ وہ اپنے علاج میں لا پرواہی برتتی ہیں۔

طبی ماہر نے بتایا کہ پاکستان میں ذیابیطس سے متاثرہ بیس سال کی عمر سے زیادہ کے افراد کی تعداد تقریباً 74 لاکھ ہے اور اگر اس میں بچوں کو بھی شامل کر دیا جائے تو کل تعداد ایک کڑور بنتی ہے۔

’’اس شرح کے حساب سے عالمی ذیابیطس فیڈریشن پاکستان کو اس بیماری سے متاثرہ دنیا کا ساتواں بڑا ملک قرار دیتی ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ جس رفتار سے ذیابیطس کا مرض بڑھ رہا ہے اس کے مطابق اگلے بیس سالوں میں پاکستان بھارت ،چین اور امریکہ کے بعد چوتھا بڑا ملک بن سکتا ہے۔

پاکستان میں ذیابیطس کے اس قدر زیادہ پھیلاؤ کے اسباب بیان کرتے ہوئے انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر نے کہا کہ بنیادی وجوہات میں موٹاپااور موروثی اثرات کے علاوہ خراب اقتصادی حالات کی وجہ سے معاشرے میں بڑھتی ہوئی پریشانیاں اور ذہنی تناؤ بھی شامل ہے۔

’’ذیابیطس سے بچاؤ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وزن خاص طور پر پیٹ نا بڑھنے دیا جائے، باقائدگی سے ورزش کی جائے اور ایک متوازن اور صحت بخش غذا اپنائی جائے۔‘‘

ناقدین کی رائے میں پاکستان میں ذیابیطس کے پھیلاؤ سمیت صحت کے شعبے کی مجموعی مایوس کن صورتحال کی ایک اہم وجہ اس شعبے کے لئے رکھا جانے والا نا کافی بجٹ ہے۔

صحت کا موجودہ بجٹ مجموعی ملکی پیداوار کا صرف0.57 فیصد ہے۔