پاکستان نے ہمسایہ ملک افغانستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنگجو تنظیم 'داعش' خراسان کے اعلیٰ کمانڈر کو اسلام آباد کے حوالے کرے۔ جسے حال ہی میں افغان سیکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا تھا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے جنوبی شہر قندھار سے گرفتار کیے جانے والا کمانڈر اسلم فاروقی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔ جسے رواں ماہ پانچ اپریل کو گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق، پاکستان میں تعینات افغانستان کے سفیر کو دفترِ خارجہ طلب کر کے اُنہیں داعش خراسان کے رہنما اسلم فاروقی کے بارے میں اسلام آباد کے نکتۂ نظر سے آگاہ کیا گیا۔
اسلم فاروقی کو عبداللہ اورکزئی کے نام سے بھی شناخت کیا جاتا ہے اور ان کا تعلق پاکستان کے قبائلی ضلع اورکزئی سے بتایا جاتا ہے۔
دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق، افغان سفیر کو یہ واضح کیا گیا ہے کہ کیونکہ اسلم فاروقی افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔ اس لیے اُسے مزید تفتیش کے لیے پاکستان کے حوالے کیا جانا چاہیے۔
دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اسلام آباد اور کابل اپنے اقدامات کو مربوط کریں۔
اگرچہ پاکستانی حکام جنگجو تنظیم داعش کی پاکستان میں منظم موجودگی سے انکار کرتے آئے ہیں۔ لیکن یہ تنظیم پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے متعدد واقعات کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔
SEE ALSO: افغانستان میں طالبان کے گڑھ سے داعش کا اہم کمانڈر گرفتارافغانستان میں سیکیورٹی فورسز نے گزشتہ ہفتے داعش کے ایک اہم کمانڈر عبداللہ اورکزئی عرف اسلم فاروقی کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
یاد رہے کہ شدت پسند تنظیم 'داعش' ایک عرصے سے افغانستان میں سرگرم ہے اور امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری کے آخر میں طے پانے والے امن معاہدے کے بعد داعش کی جانب سے افغانستان میں ہونے والے متعدد دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی جا چکی ہے۔
داعش نے کابل میں سکھوں کے گوردوارے پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق جمعرات کو بگرام ایئربیس ہونے والے پانچ راکٹ حملوں کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی تھی۔
افغانستان میں ‘نیٹو ریزلیوٹ مشن’ نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ فضائی اڈے پر پانچ راکٹ داغے گئے۔ لیکن اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
ٹوئٹ میں ریزلیوٹ سپورٹ مشن نے مزید کہا تھا کہ افغان حکام اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
افغان سیکورٹی فورسز نے ملک کے مختلف علاقوں میں امریکی فوج کی معاونت سے عسکری کارروائیاں کی ہیں۔ جب کہ طالبان بھی اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں میں داعش کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرنے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔
افغان امور کے ماہر اور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پاکستانی حکومت نے افغان حکومت سے اسلم فاروقی کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم یہ مطالبہ پورا ہو سکتا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ افغان حکومت کو کرنا ہے۔
رحیم اللہ کے مطابق، پاکستان اور افغانستان کے درمیان ملزمان کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ اس لیے افغانستان کے اوپر کوئی سفارتی دباؤ نہیں ہے کہ وہ اسلم فاروقی کو پاکستان کے حوالے کرے۔
سینئر صحافی رحیم اللہ کا مزید کہنا تھا کہ عبداللہ اورکزئی المعروف اسلم فاروقی پاکستانی شہری ہے۔ جو ماضی میں کالعدم تحریک طالبان کا اہم رکن رہا ہے اور اس کا پاکستان کے قبائلی ضلع اورکزئی سے تعلق ہے۔ جہاں سیکیورٹی آپریشن شروع ہونے کے بعد وہ افغانستان فرار ہو کر شدت پسند گروپ داعش میں شامل ہو گیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فاروقی کے بعض ساتھی پاکستان میں ہونے والے کئی دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔ اس لیے پاکستان کے پاس اسلم فاروقی کو پاکستان حوالگی کا ایک جواز تو ہے۔
تاہم رحیم اللہ کے بقول پاکستان کے مطالبے کے جواب میں افغان حکومت کا مطالبہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان، طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے اُن رہنماؤں کو افغانستان کے حوالے کرے۔ جو کابل کو مطلوب ہیں۔
رحیم اللہ کے مطابق آج تک افغانستان نے کبھی بھی پاکستان کو مطلوبہ ملزم حوالے نہیں کیا۔ لیکن دوسری طرف پاکستان نے افغان طالبان کے بعض افراد کو افغانستان کے حوالے کیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان اسلم فاروقی کی حوالگی کے معاملے پر صرف اسی صورت میں پیش رفت ہو سکتی کہ اگر اسلام آباد بھی کابل کو مطلوب بعض افراد، افغانستان کے حوالے کرے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق پاکستان کے پاس جواز موجود ہے کہ وہ فاروقی کی حوالگی کا مطالبہ کرے۔ کیونکہ اسلم فاروقی پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے بعض واقعات میں اسلام آباد کو مطلوب ہے۔
زاہد حسین کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور کابل کے تعلقات اس وقت اتنے اچھے نہیں ہیں اور ماضی میں افغانستان بھی پاکستان میں موجود بعض افراد کی حوالگی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اس لیے یہ معاملہ نہایت پیچیدہ ہے۔ اس لیے فوری طور پر اس پر پیش رفت کا کوئی امکان نہیں ہے۔
دریں اثنا، افغان حکومت نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مجرمان کی حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں ہے، اس لیے، داعش کے رہنما کے ساتھ افغانستان کے قوانین کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔
افغانستان کی وزارت خارجہ نے جمعے کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلام آباد نے اسلم فاروقی کو پاکستان کے حوالے کرنے کی درخواست کی تھی۔ لیکن، افغان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ''اسلم فاروقی نے افغانستان میں کئی کارروائیوں کا ارتکاب کیا، جس میں ٖافغانستان کے کئی عام شہری اور افغان فوجی ہلاک ہوئے۔ لہٰذا، اسلم فاروقی کے خلاف افغانستان کے قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے گی''۔
بیان میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ''افغانستان دہشت گردوں میں کوئی امیتاز روا نہیں رکھتا''۔
تاہم، افغان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور کابل، پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ ایکشن پلان کے تحت انسداد دہشت گردی کے لیے آپس میں معلومات کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔