صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم 'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز' نےدعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے موقر انگریزی اخبار ڈان کی تقسیم کی راہ میں حکام کی طرف سےملک کے کئی علاقوں میں مبینہ طور پررکاوٹ ڈالی جارہی ہے۔
تنظیم کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق یہ رکاوٹیں ڈان اخبار کی طرف سے سابق وزیر اعظم نوازشریف کا متنازع انٹرویو شائع کرنے کے بعدپیش آنا شروع ہوئی جس میں انہوں نے 2008ء میں بھارت کے شہر ممبئی ہونے والے دہشت گرد حملوں میں پاکستان کے غیر ریاستی عناصر کی بابت بیان دیا تھا۔
رپورٹرز وتھ آوٹ بارڈرز نے کہا کہ نواز شریف کا انٹرویو جو پاکستان کے مقتدر حلقوں کی ناراضی کا باعث بنا وہ ڈان اخبار میں 12 مئی کو شائع ہوا ور اخبار کی تقسیم میں رکاوٹیں 15 مئی سے شروع ہوئیں جو تنظیم کے مطابق "پاکستان میں میڈیا کی آزادی پر تازہ ترین حملہ ہے۔ "
تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ صوبہ بلوچستان کے بعض علاقوں ، سندھ کے کئی شہروں اور ملک کے بعض دیگر علاقوں میں اخبار کی تقسیم میں خلل ڈالا جارہا ہے۔
ڈان اخبار کے ایڈیٹر ظفر عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ ملک کی کئی علاقوں میں اخبار کی تقسیم میں خلل ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں ایسا کیوں ہورہا ہے اورکون لوگ اس کی ذمہ دار ہیں۔
دوسری طرف انسانی حقوق کے موقر ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ملک کے سرکاری ادارے پاکستان پریس کونسل کی طرف سے ڈان کے نامجاری ہونے والے ایک نوٹس پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اخبار نے نواز شریف کے انٹرویو سے متعلق مواد شائع کر کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔
لیکن ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک کوئی ایسا نوٹس نہیں ملا ہے اورا گر انہیں یہ نوٹس ملا تو وہ اس کا مناسب جواب دیں گے تاہم انہوں نے کہا کہ ڈان اخبار نےنواز شریف کا انٹرویو شائع کر کےصحافتی اصولوں اور اخلاقیات کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کے سربراہ اور ابلاغ کے ماہر ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا کو پہلے ہی کئی طرح کے خطرات کا سامنا ہے اور انہوں نے ڈان اخبار کے خلاف ہونے والے اقدام پر تشویش کا اظہار کیا۔
ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ " پہلے ہی معلومات تک رسائی کے حق پر عمل نہیں ہوتا ہے اور اگر اس کے بعد حکومت اس طرح کے اقدام کرے گی تو آزادی اظہار ختم ہو جائے گی جو بہت محنت سے صحافیوں اور صحافیوں کی تنظیم' پی ایف یو جے' نے خاص حاصل کیا تھا اگر اس پر پابندیاں لگنی شروع ہو گئیں تو یہ صورت حال پاکستان کے لیے کسی طور بھی اچھی نہیں ہوگی۔"
حکومت کی کسی عہدیدار کا رپورٹرز وتھ آؤٹ بارڈر کے بیان پر ردعمل جاننے کی کوشش کے باوجود ان سےرابطہ نہیں ہو سکا ہے اگرچہ حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہتے رہے ہیں کہ حکومت آزادی اظہار کے حق پر یقین رکھتی ہے۔
تاہم بعض مبصرین کے خیال میں حالیہ سالوں میں ملک میں امن و امان کی صورت حال کی بہتری کے باوجود صحافیوں اور نشریاتی اداروں کے لیے خطرات اور مختلف حلقوں کی طرف سے دباؤمیں اضافہ ہوا ہے اور رپورٹر وتھ بارڈز کی طرف سے گزشتہ ماہ جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق آزادی صحافت کے حوالے سے پاکستان 180 ملکوں کی فہرست میں 139ویں نمبر پر ہے۔