سمندری طوفان پاکستانی حدود میں داخل

سمندری طوفان پاکستانی حدود میں داخل

بحیرہ عرب میں اٹھنے والا سمندری طوفان ”فیٹ“ اومان کے ساحل سے ٹکرانے کے بعد پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہوگیا ہے۔ محکمہ موسمیات سے حاصل ہونے والی آخری معلومات کے مطابق یہ طوفان کراچی سے چندسو سے کلومیٹر دور ہے اور بلوچستان کی ساحلی پٹی سے گزر رہا ہے۔

محکمہ موسمیات کراچی کے سربراہ محمد ریاض نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ”فیٹ“ کی شدت کم ہوگئی ہے اور اب یہ کیٹیگری ون کا طوفان ہے اور 12کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سندھ کے ساحلی علاقوں کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں اتوار کے روز کسی بھی وقت کراچی سے پسنی کے درمیانی ساحلی علاقے میں اس کے ٹکرانے کا امکان ہے۔ محمد ریاض کے مطابق اس کی لہریں تین سے پانچ میٹر بلند ہوسکتی ہیں۔

ادھر طوفان کے پیش نظر سندھ حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے ڈیزاسٹر مینیجمنٹ سیل کے سربراہ صالح فاروقی نے بتایا ہے کہ صوبائی حکومت افواج پاکستان، انتظامی اداروں اور دستیاب وسائل کی مدد سے کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

صالح فاروقی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ٹھٹھہ اور بدین میں دوروز قبل سے ہی لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ کراچی میں ایسی آبادیاں چونکہ انتظامی ڈھانچے کے قریب ہیں اس لیے کسی بھی وقت منتقل کیا جاسکتا ہے ۔ کراچی کے جزیروں باباپیر اور بھٹ شمس سے لوگوں کو ہفتے کو لوگوں کو نکالنے کا کام شروع کردیاگیا ہے۔

واضح رہے کہ محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی سمیت سندھ میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ ہفتے کی شب سے متوقع ہے جو منگل تک جاری رہے گا۔

ادھر بلوچستان کے ساحلی علاقوں بالخصوص گوادر اور جیوانی میں طوفان کی آمد سے پہلے ہی طوفانی بارشوں نے تباہی مچادی ہے۔ سب سے زیادہ بارش گوادر میں ریکارڈ کی گئی جو 300ملی میٹر سے زائد بتائی جاتی ہے۔ شہر کا بڑا حصہ زیر آب ہے، لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں تاہم متاثرین کو محفوظ مقامات تک منتقل کرنے کا کام جاری ہے۔ بلوچستان میں بارشوں کا سلسلہ آئندہ 48گھنٹوں تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

دریں اثناء گلوبل چینج امپیکٹ اسٹڈیز کے ماہر موسمیات منیر شیخ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سمندری طوفان ملک میں حالیہ سالوں کے دوران آنے والے طوفانوں کی نسبتاً کم شدت کا حامل ہوگا اور اس میں نسبتاً کم تباہی متوقع ہے۔