وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ بھارتی ریاست آسام سے لوگوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی وجہ اگر پاکستانی عناصر ہیں تو اُن کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی۔
پاکستان کے وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ بھارتی ریاست آسام سے لوگوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی وجہ اگر پاکستانی عناصر ہیں تو اُن کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی۔
رحمٰن ملک نے اتوار کو اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ بھارتی ہم منصب سوشیل کمار شندے سے ٹیلی فون پر گفتگو میں انھوں نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ اگر بھارت نے باضابطہ طور پر ٹھوس معلومات یا شواہد فراہم کیے تو پاکستان ان الزامات کی ضرور تحقیقات کرےگا۔
بھارتی حکام کا الزام ہے کہ بعض پاکستانی عناصر کی طرف سے موبائل فون کے ذریعے بھیجے گئے دھمکی آمیز پیغامات دراصل ریاست آسام سے تعلق رکھنے والے بے دخل خاندانوں کی بنگلور اور ممبئی سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی وجہ بنے ہیں۔
لیکن وزارت داخلہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے رحمٰن ملک نے کہا کہ انھوں نے بھارتی وزیر داخلہ سے اپنے الزامات کی حمایت میں ثبوت سرکاری طور پر پاکستان کو بھیجنے کی درخواست کی ہے۔
’’ہمیں سرکاری طور پر اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے ... اگر ان کے پاس کوئی معلومات ہیں تو ہم ان کی تحقیقات بھی کریں گے اور انھیں پوری تفصیلات بھی دیں گے۔‘‘
رحمٰن ملک نے کہا کہ آج کے جدید دور میں موبائل فون سے پیغام دنیا کے کسی کونے میں بیٹھ کر بھیجا جاسکتا ہے لیکن اگر یہ کام پاکستان کے اندر سے کیا گیا ہے تو ماہرین کے لیے پیغام بھیجنے والے اور اس کے مقام کا سراغ لگانا مشکل نہیں، لہذا بھارتی حکام کو جلد سے جلد اس ضمن میں ثبوت پاکستان کو فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل ہفتہ کو بھارت کے داخلہ سیکرٹری آر کے سنگھ نے دعویٰ کیا تھا کہ خفیہ اداروں نے تحقیقات کرکے پتا لگایا ہے کہ دھمکی آمیز پیغامات پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے ویب سائٹس پر شائع کیے گئے ہیں جو اپنی نوعیت کی پہلی اور قابل مذمت کارروائی ہے۔
دھمکی آمیز پیغامات میں کہا گیا تھا کہ حالیہ لسانی تشدد کے ردعمل میں ریاست آسام سے تعلق رکھنے والے افراد پر رمضان کے بعد مسلمانوں کی طرف سے حملوں کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ان پیغامات نے 35 ہزار سے زائد خوفزدہ افراد کو حالیہ دنوں میں بنگلور اور ممبئی سے نقل مکانی پر مجبور کیا ہے۔
بھارتی حکام کو ان لوگوں کے لیے اضافی ریل گاڑیوں کا بندوبست کرنا پڑا۔
رحمٰن ملک نے اتوار کو اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ بھارتی ہم منصب سوشیل کمار شندے سے ٹیلی فون پر گفتگو میں انھوں نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ اگر بھارت نے باضابطہ طور پر ٹھوس معلومات یا شواہد فراہم کیے تو پاکستان ان الزامات کی ضرور تحقیقات کرےگا۔
بھارتی حکام کا الزام ہے کہ بعض پاکستانی عناصر کی طرف سے موبائل فون کے ذریعے بھیجے گئے دھمکی آمیز پیغامات دراصل ریاست آسام سے تعلق رکھنے والے بے دخل خاندانوں کی بنگلور اور ممبئی سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی وجہ بنے ہیں۔
لیکن وزارت داخلہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے رحمٰن ملک نے کہا کہ انھوں نے بھارتی وزیر داخلہ سے اپنے الزامات کی حمایت میں ثبوت سرکاری طور پر پاکستان کو بھیجنے کی درخواست کی ہے۔
’’ہمیں سرکاری طور پر اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے ... اگر ان کے پاس کوئی معلومات ہیں تو ہم ان کی تحقیقات بھی کریں گے اور انھیں پوری تفصیلات بھی دیں گے۔‘‘
رحمٰن ملک نے کہا کہ آج کے جدید دور میں موبائل فون سے پیغام دنیا کے کسی کونے میں بیٹھ کر بھیجا جاسکتا ہے لیکن اگر یہ کام پاکستان کے اندر سے کیا گیا ہے تو ماہرین کے لیے پیغام بھیجنے والے اور اس کے مقام کا سراغ لگانا مشکل نہیں، لہذا بھارتی حکام کو جلد سے جلد اس ضمن میں ثبوت پاکستان کو فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل ہفتہ کو بھارت کے داخلہ سیکرٹری آر کے سنگھ نے دعویٰ کیا تھا کہ خفیہ اداروں نے تحقیقات کرکے پتا لگایا ہے کہ دھمکی آمیز پیغامات پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے ویب سائٹس پر شائع کیے گئے ہیں جو اپنی نوعیت کی پہلی اور قابل مذمت کارروائی ہے۔
دھمکی آمیز پیغامات میں کہا گیا تھا کہ حالیہ لسانی تشدد کے ردعمل میں ریاست آسام سے تعلق رکھنے والے افراد پر رمضان کے بعد مسلمانوں کی طرف سے حملوں کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ان پیغامات نے 35 ہزار سے زائد خوفزدہ افراد کو حالیہ دنوں میں بنگلور اور ممبئی سے نقل مکانی پر مجبور کیا ہے۔
بھارتی حکام کو ان لوگوں کے لیے اضافی ریل گاڑیوں کا بندوبست کرنا پڑا۔