وفاق کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ درخواستیں قابل سماعت ہیں بھی یا نہیں۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں توہین عدالت کے متنازع قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران منگل کو وفاق کے وکیل نے اپنے دلائل دیئے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے روبرو وفاق کے وکیل عبدالشکور پراچہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا اس لیے سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ درخواستیں قابل سماعت ہیں بھی یا نہیں۔
انھوں نے کہا کہ توہین عدالت کا نیا قانون کسی بھی طرح سے عدلیہ کے اختیارات کو محدود نہیں کرتا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے دوران سماعت کہا کہ حکومت کا یہ کہنا درست نہیں کہ نئے قانون میں کوئی خامی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر آمریت کو کندھا نہ دیا جائے تو جمہوریت چلتی رہے گی۔
مقدمے کی سماعت اب بدھ کو ہو گی۔
ایک روز قبل توہین عدالت کے متنازع قانون کے خلاف ہونے والی سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکلا نے اپنے دلائل مکمل کر لیے تھے۔
اپنے اختتامی دلائل میں ان کا کہنا تھا کہ ملک کا آئین امتیازی قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا اور ان کے بقول جلد بازی میں منظور کرائے گئے توہین عدالت کے نئے قانون میں عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے اور کسی ایک کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں۔
پاکستانی پارلیمان میں اس مہینے منظور کیے گئے توہین عدالت سے متعلق نئے قانون کے تحت وزیراعظم، وفاقی و صوبائی وزراء اور وزرائے اعلیٰ کے اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کیے گئے فیصلوں پر توہین عدالت کا قانون لاگو نہیں ہوگا۔
حزب مخالف اس قانون کو عدلیہ کی اختیارات محدود کرنے کی حکومتی کوشش قرار دے رہی ہے جب کہ حکومت اسے اداروں کی مضبوطی سے تعبیر کرتی ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے روبرو وفاق کے وکیل عبدالشکور پراچہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا اس لیے سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ درخواستیں قابل سماعت ہیں بھی یا نہیں۔
انھوں نے کہا کہ توہین عدالت کا نیا قانون کسی بھی طرح سے عدلیہ کے اختیارات کو محدود نہیں کرتا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے دوران سماعت کہا کہ حکومت کا یہ کہنا درست نہیں کہ نئے قانون میں کوئی خامی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر آمریت کو کندھا نہ دیا جائے تو جمہوریت چلتی رہے گی۔
مقدمے کی سماعت اب بدھ کو ہو گی۔
ایک روز قبل توہین عدالت کے متنازع قانون کے خلاف ہونے والی سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکلا نے اپنے دلائل مکمل کر لیے تھے۔
اپنے اختتامی دلائل میں ان کا کہنا تھا کہ ملک کا آئین امتیازی قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا اور ان کے بقول جلد بازی میں منظور کرائے گئے توہین عدالت کے نئے قانون میں عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے اور کسی ایک کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں۔
پاکستانی پارلیمان میں اس مہینے منظور کیے گئے توہین عدالت سے متعلق نئے قانون کے تحت وزیراعظم، وفاقی و صوبائی وزراء اور وزرائے اعلیٰ کے اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کیے گئے فیصلوں پر توہین عدالت کا قانون لاگو نہیں ہوگا۔
حزب مخالف اس قانون کو عدلیہ کی اختیارات محدود کرنے کی حکومتی کوشش قرار دے رہی ہے جب کہ حکومت اسے اداروں کی مضبوطی سے تعبیر کرتی ہے۔