عدلیہ اور حکومت میں ایک بار پھر تناؤ

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری مقدمے کی سماعت کررہے ہیں (فائل فوٹو)

جمعہ کو عدالت عظمیٰ میں اس مقدمے کی سماعت کے کچھ ہی دیر بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سینٹ کے اجلاس سے خطاب میں صدر زرداری کا بھرپور دفاع کیا جس پر قانونی ماہرین تعجب کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اُن کہنا ہے کہ اس بیان سے بظاہر یہ لگتا ہے حکومت سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود صدر زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں میں قائم بدعنوانی کے مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے خط نہ لکھنے کے اپنے فیصلے پر قائم ہے اور یہ اقدامات ملک کے دونوں اداروں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ این آر او کی منسوخی کے فیصلے پر عمل درآمد کے بارے میں مقدمے کی سماعت کررہا ہے اور جمعہ کو عدالت نے اٹارنی جنرل انوار الحق سے کہا ہے کہ وہ اس ضمن میں وفاق کے موقف سے عدالت عظمیٰ کو پیر 27 ستمبرکو آگاہ کریں ۔

اٹارنی جنرل انوارالحق نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں میں مقدمات دوبارہ کھولنے کے بارے میں وزارت قانون کی طرف سے بھیجی جانے والی سمری منظور کر لی ہے تاہم اس کے مندرجات کو اس وقت ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ منظور کردہ سمری عدالت میں پیش کی جائے تاکہ یہ پتہ لگ سکے کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہور ہا ہے یا نہیں۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وزیراعظم سمجھدار آدمی ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر حکومت عدالتی فیصلے پر عمل درآمدنہیں کرتی تو پھر کوئی بھی عدالت کا فیصلہ ماننے سے انکار کر سکتا ہے۔

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی

جمعہ کو عدالت عظمیٰ میں اس مقدمے کی سماعت کے کچھ ہی دیر بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سینٹ کے اجلاس سے خطاب میں صدر زرداری کا بھرپور دفاع کیا جس پر قانونی ماہرین تعجب کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اُن کہنا ہے کہ اس بیان سے بظاہر یہ لگتا ہے حکومت سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود صدر زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں میں قائم بدعنوانی کے مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے خط نہ لکھنے کے اپنے فیصلے پر قائم ہے اور یہ اقدامات ملک کے دونوں اداروں کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ صدرپاکستان نا صرف وفاق کی علامت ہیں بلکہ ملک کی مسلح افواج کے سربراہ بھی ہیں اس لیے اُن کے خلاف کسی بھی طرح کی عدالتی کارروائی کی آئین اجازت نہیں دیتااور صدر کے بغیر پاکستان کی پارلیمان ادھوری ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ صرف پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کر کے صدر کو حاصل استثنیٰ ختم کرسکتی ہے۔

صدر زرداری

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمی کے 17 رکنی فل کورٹ بینچ نے گذشتہ سال 16 دسمبر کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں جاری کیے جانے والے متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس یا این آر او کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کردیا تھا ۔ عدالت نے حکم دیا تھا کہ اس متنازع صدارتی حکم نامے کے تحت فائدہ اُٹھانے والے آٹھ ہزار سے زائد افراد کے خلاف مقدمات دوبارہ بحال کیے جائیں۔

حکومت کی طرف سے فراہم کردہ فہرست کے مطابق این آراو سے مستفید ہونے والوں میں صدر آصف علی زرداری کے علاوہ وفاقی کابینہ کے وزرا ء بشمول وزیر داخلہ رحمن ملک بھی شامل ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت کا موقف ہے صدر زرداری اور پارٹی کے دیگر عہدیداروں کے خلاف یہ مقدمات سیاسی بنیادیوں پر قائم کیے گئے تھے۔