پاکستان میں ایک اور ذیلی یا ضلعی عدالت نے توہین مذہب کے ایک مقدمے سزائے موت سنائی ہے اور ماہرین توقع کا اظہار کر رہے ہیں کہ اعلی عدالتوں میں اپیل کے بعد فیصلہ تبدیل ہو سکتا ہے۔
ملتان میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے 33 سالہ ایک اسکالر جنید حفیظ پر اہانت مذہب کا الزام ہے اور وہ چھ سال سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں۔ مقدمے کی سماعت کا حصہ ججوں اور وکلا میں تبدیلیوں کے سبب ان کا مقدمہ تاخیر کا شکار رہا ہے اور ان کے ایک وکیل راشد رحمان کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک بھی کر دیا تھا۔
ایسا کیوں ہے کہ ذیلی عدالتوں میں اہانت مذہب کے مقدمات میں اگر سو فیصد نہیں تو بھی بشتر مقدموں میں ملزم سزاوار ہی قرار پاتا ہے اور پھر اعلی عدلیہ میں عام طور پر یہ سزا ناقص قرار پاتی ہے اور ملزم کو رہائی مل جاتی ہے؟
اس بارے میں معروف قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سیئنر قانون دان حامد خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ جس علاقے یا شہر میں اہانت مذہب کا مسئلہ اٹھتا ہے وہاں سماج کا دباؤ عدالت اور انتظامیہ پر بڑھ جاتا ہے۔
’’ بنیادی طور پر نیچے ٹرائل کورٹس ہوتی ہیں۔ ان پر یہ دباؤ ہوتا ہے کہ ملک میں لا اینڈ آرڈر کی صورت حال خراب ہے، مجرمانہ سرگرمیاں زیادہ ہیں، لہٰذا ملزم کو وہ سزا سنائیں۔ ججوں پر یہ بھی دباؤ ہوتا ہے کہ عام طور پر انتظامیہ کہتی ہے کہ ہم تو ملزمان کو پکڑتے ہیں، عدالت سزا نہیں دیتی، جس سے بعد میں خون خرابہ ہوتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے بھی نچلی عدالت ایسے فیصلے کر دیتی ہے اور وہاں جج، ممکن ہے، بعض کیسوں میں خود بھی اور انتظامیہ بھی سوچ رہے ہوتے ہیں کہ اگرچہ ملزم کے خلاف شہادتیں ناکافی ہیں لیکن بادی النظر میں اس سے اہانت کا ارتکاب ہوا ہے تو وہ بڑی سزا سنا دیتے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ بڑی عدالتوں میں تو اس نے رہا ہو ہی جانا ہے کچھ عرصہ تو کال کوٹھڑی میں گزار لے‘‘۔
سابق جج، جسسٹس طارق محمود اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ جج صاحبان ایسی کسی سوچ کے تابع سزا سنا دیتے ہیں۔
SEE ALSO: جنید حفیظ کو انصاف نہیں ملا، سوشل میڈیا پر تبصرے’’ حامد خان صاحب وکیل ہیں، میں جج رہا ہوں۔ میں ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ اگر ہائی کورٹ کا جج کسی ملزم کی سزائے موت کی تصدیق کرتا ہے۔ جج کے سامنے جب شہادت آئی تو اس نے قیاس آرائی یا کسی تصور کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرنا۔ جج عینی شاہد نہیں ہے اور جج نے جو فیصلہ کرنا ہے وہ ریکارڈ کی بنیاد پر کرنا ہے۔ ہماری عدالتیں، تکنیکی اعتبار سے، انصاف کی عدالتیں نہیں ہوتیں، وہ قانون کی عدالت ہوتی ہیں۔ مقدمے کا فیصلہ قانون شہادت کی بنیاد پر ہوتا ہے‘‘
تاہم جسسٹس طارق محمود تسلیم کرتے ہیں کہ ذیلی عدالتوں پر دباؤ ہوتا ہے۔
’’ ایسے (اہانت مذہب کے) کیسز جب بنتے ہیں تو جہاں شاید کچھ حقیقت ہوتی ہے، وہاں افسانہ بھی ہوتا ہے۔ جو ماحول پیدا کیا جاتا ہے تو جو لوگ اس کا حصہ ہوتے ہیں، کافی متحرک ہوتے ہیں۔ پولیس پر بھی دباؤ ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے میں تحقیقات بھی صحیح نہیں ہوتیں۔ چالان کے بعد جب عدالتی کاروائی شروع ہوتی ہے تو وہ عناصر اس کا بھی حصہ بنتے ہیں۔ سماعت کے دوران عدالتوں میں آتے ہیں اور جج پر دباؤ ہوتا ہے۔ اور جب گواہ آتے ہیں، ان کے بیانات میں بھی مبالغہ آرائی ہوتی ہے۔"
اُن کے بقول، "آسیہ بی بی کے مقدمے میں جو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا، اس میں ان تضادات کو اجاگر کیا گیا۔ لیکن نچلی عدالتوں میں دباؤ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ جج صاحبان بھی بنیادی اصولوں سے ہٹ کر، قانون شہادت سے ہٹ کر فیصلہ دیتے ہیں۔ اگر میں بہت تعظیم کے ساتھ کہہ سکوں کہ کسی حد تک وہ بھی متعصب ہو جاتے ہیں اور فیصلہ ملزم کے خلاف آتا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ جج صاحب کو یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ ہم تو اپنی جان چھڑالیں کیونکہ جس علاقے میں واقعہ ہوا ہے، جج بھی وہیں کا ہے، اور اس پر مقدمہ کرنے والوں کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ جب ایک واقعہ ہوتا ہے اور ایک ٹرائل ہوتا ہے تو ایک تسلسل سے چیزیں چل رہی ہوتی ہیں، لیکن ہائی کورٹ میں اپیل میں ایک آدھ سال کا وقفہ آ جاتا ہے۔ پانچ سال کا وقفہ بھی آ جاتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ عناصر (مقدمہ کرنے والے، اس کو فالو کرنے والے) وہ بھی غائب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
جسسٹس طارق محمود کا مزید کہنا ہے کہ آسیہ بی بی کے کیس میں بہرحال ایسا نہ ہو سکا۔ اس میں بہت طاقتور عناصر پیچھے تھے اور بھی بہت سی باتیں تھیں۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی ملزمہ سے ملاقات اور پھر گورنر کا قتل ہو جانا۔ لیکن عمومی طور پر ایسے کیس جب سپریم کورٹ میں آتے آتے تو صورت حال بدل جاتی ہے۔ جج بھی اور اوپر کی عدالت میں مقدمہ ہونے کے باوجود بہت شدت رہی۔
جسٹس طارق محمود مزید کہتے ہیں کہ جج حضرات عام طور پر یہ دباؤ نہیں سہار پاتے اور وہ ملزم کو کچھ سزا سنا دیتے ہیں تاکہ لوگوں کے غم و غصے میں کمی ہو اور پھر اگلی عدالتوں میں ٹرائل ہو۔ بڑی عدالتوں میں جج حضرات ذیلی عدالتوں کی نسبت اس دباؤ کا سامنے کرنے کی زیادہ سکت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مقدمے کے گواہ اور باقی شہادتیں بھی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ جانے تک اتنی پر جوش نہیں رہیتں۔ یہاں جج صاحبان بھی زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ جب ان کے سامنے شہادتیں کمزور پڑ جائیں تو ان کو احساس ہوتا ہے کہ ٹرائل میں نا انصافی بھی ہوئی ہے کسی نہ کسی جگہ۔ آسیہ بی بی کے کیس کو پڑھ لیں تو پتا چلتا ہے کہ تحقیقات کے مرحلے میں کیا ہوتا رہا۔ عدالتی کاروائی کے دوران کیا ہوا۔ وہاں ماحول کیسا تھا۔ جسٹس ثاقب نثار نے تفصیلی فیصلہ لکھا، اس میں بہت سی چیزیں واضح ہو جاتی ہیں۔‘‘
تو عدالتوں میں فیصلہ بھلے عوامی دباؤ پر ہو، یا کسی عصبیت کی بنیاد پر، کیا اس کو انصاف کہہ سکتے ہیں؟ مذہبی اور سماجی علوم کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر خورشید ندیم کہتے ہیں کہ کسی بھی عصبیت کے تابع فیصلے کو انصاف کا نام نہیں دے سکتے۔
’’ وہ انصاف تو کسی صورت نہیں۔ جو آدمی سمجھتا ہے کہ وہ اس دباؤ کا سامنا نہیں کر سکتا۔ ان کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ جج کے منصب سے رضاکارانہ طور پر الگ ہو جائے'‘۔
ان کے بقول پاکستان میں بدقسمتی یہ ہے کہ خود ریاست بھی بہت سارے معاملات میں عدالتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ماضی میں ہمارے سامنے مثالیں ہیں اور مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے‘‘۔
SEE ALSO: جنید حفیظ کیس: چيف جسٹس سپریم کورٹ کے نام خط ميں رہائی کی اپيلڈاکٹر پروفیسر مہدی حسن، پاکستان انسانی حقوق کمشن کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ریلیجئس مائٹ (طاقتور مذہبی طبقہ) بہت مضوط ہے۔ اور افسوس یہ ہے کہ ریاست اور حکومت دونوں کا رویہ اس طبقے کے خلاف معذرت خواہانہ ہے۔ قانونی ماہرین کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اہانت مذہب کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
’’ جب تک سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی فوائد کے لیے مذہب کو استعمال کرنا بند نہیں کرتیں، یہ ٹھیک نہیں ہونے والا۔ جب کبھی بات ہوتی بھی ہے کہ اہانت مذہب کے قانون کے غلط استعمال والوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہونی چاہیے تو یہ ریلیجئس مائٹ اتنی متحرک ہو جاتی ہے کہ ساری مہم ہی ختم ہو جاتی ہے‘‘۔
ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق پاکستان میں پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے سوا کوئی ایسی جماعت نہیں جو اپنی سیاست میں مذہب کارڈ استعمال نہ کرتی ہو۔
پروفیسر خورشید ندیم کے بقول نہ صرف سیاست والوں کو بلکہ ریاست والوں کو بھی مذہب کارڈ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
پروفیسر مہدی حسن کہتے ہیں کہ اہانت کے مقدمات میں آج تک پاکستان کے اندر کسی ملزم کو عدالت سے سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ یہ الگ بات کہ سات ملزمان کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔ ایک جج کو بھی جنہوں نے اہانت کے ایک ملزم کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔
ملتان میں سزا پانے والے نوجوان سکالر جنید حفیظ کے مقدمے کے جزیات کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ اعلی عدلیہ میں جب مقدمہ چلے گا تو ملزم کی جان بچ جائے گی۔ امید کرتے ہیں کہ کیونکہ آج تک کسی ملزم کو اس الزام کے تحت سزا نہیں ہوئی، اب بھی وہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘‘
جنید حفیظ کو ہفتے کے روز توہین مذہب کی دفعہ 295 بی کے تحت عمر قید اور دفعہ 295 اے کے تحت 10 سال قید اور پانچ لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ سزائیں بیک وقت شروع ہوں گی جب کہ عمر قید اور دیگر سزائیں پوری ہونے پر انہیں پھانسی دی جائے۔
فیصلہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کاشف قیوم نے سنایا۔ سیکیورٹی کے پیش نظر اور مجرم کے ایک وکیل راشد رحمان کے قتل کے بعد مقدمے کی سماعت 2014 سے سینٹرل جیل ملتان میں ہو رہی تھی۔
تین دن قبل اس کیس کی آخری سماعت رات گئے تک جاری رہی تھی اور پھر اس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔ ملزم کے وکلا اور پراسیکیوشن کی جانب سے چوہدری ضیاء الرحمان نے اپنے دلائل مکمل کئے تھے۔
یاد رہے کہ آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے الزام میں 2010ء میں سزائے موت سنائی گئی تھی، جسے بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ تاہم، آسیہ بی بی کی اپیل پر سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے 31 اکتوبر 2018ء کو اُن کی رہائی کا حکم دیا تھا۔