سابق فوجی صدر کے وکلا کی ٹیم میں شامل بیرسٹر محمد علی سیف نے عدالت عظمیٰ کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ عدالت نے ’’ایک غلط فیصلے کو درست کرنے کا موقع گنوا دیا۔‘‘
اسلام آباد —
پاکستان کی عدالت عظمٰی نے 31 جولائی 2009ء کے ایک فیصلے کے خلاف سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی نظر ثانی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
عدالتی فیصلے میں تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کرنے پر انہیں ’’غاصب‘‘ قرار دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 14 رکنی بینچ نے جمعرات کو نظر ثانی کی درخواست خارج کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقررہ مدت میں دائر نہیں کی گئی اور یہ میرٹ کے مطابق بھی نہیں۔
عدالت عظمٰی کے لارجر بینچ کا کہنا تھا کہ درخواست گزار یہ بھی ثابت نہیں کر سکے کہ 31 جولائی 2009 کے فیصلے میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا رویہ تعصب پر مبنی تھا۔
سابق صدر کی وکلاء ٹیم کے سربراہ شریف الدین پیرزادہ نے 31 جولائی کے فیصلے کو اس بنا پر متعصب قرار دیا کہ پرویز مشرف اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے مارچ 2007ء میں شروع ہونے والے اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
ان کے بقول افتخار چودھری نے یہ فیصلہ اسی تعصب میں دیا تھا۔ تاہم لارجر بینچ میں شامل ججوں کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پرویز مشرف کی طرف سے اعتراض ریکارڈ پر نہیں اور اگر ایسا مان بھی لیا جائے تو ججوں کی اکثریت نے 31 جولائی کا فیصلہ دیا اور اکثریت کا فیصلہ ہی موثر اور قابل عمل ہوتا ہے۔
پرویزمشرف کے وکلا کی ٹیم میں شامل بیرسٹر محمد علی سیف نے عدالت عظمٰی کے لارجر بینچ کے فیصلے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ عدالت نے ’’ایک غلط فیصلے کو درست کرنے کا موقع گنوا دیا۔‘‘
بدھ کو پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے سماعت کے دوران یہ کہا تھا کہ تین نومبر کو ملک میں ایمرجنسی لگانے کا اقدام ان کے موکل نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کیا۔
جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے عدالت کا مسئلہ حل کردیا کیونکہ غداری کا مقدمہ بھی صرف پرویز مشرف ہی کے خلاف ہے۔
پرویز مشرف کے خلاف وفاق کی درخواست پر ایک خصوصی عدالت میں غداری کا مقدمہ بھی چلایا جا رہا ہے۔
جمعرات کو خصوصی عدالت میں سماعت کے دوران پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے پرویز مشرف کی طبی رپورٹ پر اپنے دلائل دیے اور کہا کہ سابق صدر بیماری کو جواز بنا کر عدالتی کارروائی سے بچنا چاہ رہے ہیں۔
اُدھر پرویز مشرف کے وکلاء نے خصوصی عدالت میں ایک درخواست دائر کی کہ اُن کے موکل کو علاج کے لیے امریکہ جانے کی اجازت دی جائے۔
پرویز مشرف کے وکلا کے مطابق جب وہ دو جنوری کو خصوصی عدالت میں پیشی کے لیے آ رہے تھے تو راستے میں اُنھیں سینے میں تکلیف کے باعث راولپنڈی میں عسکری ادارہ برائے امراض قلب منتقل کر دیا گیا جہاں وہ اب بھی زیر علاج ہیں۔
خصوصی عدالت کے حکم پر تشکیل کردہ میڈیکل بورڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سابق صدر کی بیماری پیچیدہ ہے اور اُن کی فوری اینجیو گرافی کی ضرورت ہے۔
عدالتی فیصلے میں تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کرنے پر انہیں ’’غاصب‘‘ قرار دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 14 رکنی بینچ نے جمعرات کو نظر ثانی کی درخواست خارج کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقررہ مدت میں دائر نہیں کی گئی اور یہ میرٹ کے مطابق بھی نہیں۔
عدالت عظمٰی کے لارجر بینچ کا کہنا تھا کہ درخواست گزار یہ بھی ثابت نہیں کر سکے کہ 31 جولائی 2009 کے فیصلے میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا رویہ تعصب پر مبنی تھا۔
سابق صدر کی وکلاء ٹیم کے سربراہ شریف الدین پیرزادہ نے 31 جولائی کے فیصلے کو اس بنا پر متعصب قرار دیا کہ پرویز مشرف اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے مارچ 2007ء میں شروع ہونے والے اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
ان کے بقول افتخار چودھری نے یہ فیصلہ اسی تعصب میں دیا تھا۔ تاہم لارجر بینچ میں شامل ججوں کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پرویز مشرف کی طرف سے اعتراض ریکارڈ پر نہیں اور اگر ایسا مان بھی لیا جائے تو ججوں کی اکثریت نے 31 جولائی کا فیصلہ دیا اور اکثریت کا فیصلہ ہی موثر اور قابل عمل ہوتا ہے۔
پرویزمشرف کے وکلا کی ٹیم میں شامل بیرسٹر محمد علی سیف نے عدالت عظمٰی کے لارجر بینچ کے فیصلے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ عدالت نے ’’ایک غلط فیصلے کو درست کرنے کا موقع گنوا دیا۔‘‘
بدھ کو پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے سماعت کے دوران یہ کہا تھا کہ تین نومبر کو ملک میں ایمرجنسی لگانے کا اقدام ان کے موکل نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کیا۔
جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے عدالت کا مسئلہ حل کردیا کیونکہ غداری کا مقدمہ بھی صرف پرویز مشرف ہی کے خلاف ہے۔
پرویز مشرف کے خلاف وفاق کی درخواست پر ایک خصوصی عدالت میں غداری کا مقدمہ بھی چلایا جا رہا ہے۔
جمعرات کو خصوصی عدالت میں سماعت کے دوران پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے پرویز مشرف کی طبی رپورٹ پر اپنے دلائل دیے اور کہا کہ سابق صدر بیماری کو جواز بنا کر عدالتی کارروائی سے بچنا چاہ رہے ہیں۔
اُدھر پرویز مشرف کے وکلاء نے خصوصی عدالت میں ایک درخواست دائر کی کہ اُن کے موکل کو علاج کے لیے امریکہ جانے کی اجازت دی جائے۔
پرویز مشرف کے وکلا کے مطابق جب وہ دو جنوری کو خصوصی عدالت میں پیشی کے لیے آ رہے تھے تو راستے میں اُنھیں سینے میں تکلیف کے باعث راولپنڈی میں عسکری ادارہ برائے امراض قلب منتقل کر دیا گیا جہاں وہ اب بھی زیر علاج ہیں۔
خصوصی عدالت کے حکم پر تشکیل کردہ میڈیکل بورڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سابق صدر کی بیماری پیچیدہ ہے اور اُن کی فوری اینجیو گرافی کی ضرورت ہے۔