مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق سابق صدر کے گھر سے عدالت جانے والے راستے پر منگل کی صبح پانچ کلو گرام دھماکا خیز مواد برآمد ہوا جسے بم ڈسپوزل اسکواڈ نے ناکارہ بنا دیا۔
اسلام آباد —
پاکستان کی ایک عدالت کی طرف سے ملک کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی اُن تین درخواستوں جس میں اُنھوں نے اپنے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق حکومت کی قائم کردہ تین رکنی خصوصی عدالت، اس کے ججوں اور وفاق کے مقرر کردہ پراسیکوٹر کی تعیناتی کو چیلنج کیا تھا، مسترد کیے جانے کے بعد غداری کے مقدمے کی کارروائی کا آغاز منگل سے ہورہا ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق سابق صدر کے گھر سے عدالت جانے والے راستے پر منگل کی صبح پانچ کلو گرام دھماکا خیز مواد برآمد ہوا جسے بم ڈسپوزل اسکواڈ نے ناکارہ بنا دیا۔
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ریاض احمد خان نے سابق صدر پرویز مشرف کی دائر کردہ درخواستوں کی سماعت کے بعد پیر کو انھیں مسترد کر دیا۔ عدالت کی طرف سے مختصر فیصلہ ہی سنایا گیا جس میں ان درخواستوں کو مسترد کرنے کی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔
پرویز مشرف نے اپنی درخواستوں میں غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کے طریقہ کار اور اس میں ججوں کی تعیناتی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
سابق صدر کے وکلاء نے اس مقدمے کے لیے حکومت کے پراسکیوٹر اکرم شیخ کی تقرری کو چیلنج کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف ذاتی عناد رکھتے ہیں۔
اس بار ے میں پرویز مشرف کے ایک وکیل محمد علی سیف نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ’’ہزاروں، لاکھوں وکلا ہیں۔ اعلٰی سینیئر وکیل موجود ہیں اُن میں کسی (غیر جانبدار) کو جس کا ذہن، جس کے خیالات اور جس کا سابقہ کردار بالکل غیر جانبدار ہو۔ اُس نے پرویز مشرف کے خلاف کسی منفی رائے کا اظہار نا کیا ہو اس کو بے شک (پراسکیوٹر) مقرر کر دیا جائے ۔‘‘
تاہم وفاقی حکومت میں شامل وزرا اس مقدمے سے متعلق کسی بھی طرح کی جانبداری کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہتے آئے ہیں کہ عدالتیں بالکل آزاد ہیں اور اُن کے فیصلوں پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
حکومت نے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دے رکھی ہے جس نے غداری سے متعلق مقدمے کی ابتدائی سماعت کے لیے پرویز مشرف کو 24 دسمبر کو طلب کر رکھا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواستوں کے مسترد ہونے کے بعد اب توقع ہے کہ پرویز مشرف منگل کو خصوصی عدالت کے روبرو پیش ہوں گے۔
عدالت میں سماعت سے قبل سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
سابق فوجی صدر نے تین نومبر 2007 کو بطور آرمی چیف ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین کو معطل کر دیا تھا، جس پر حکومت نے اُن کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔
سابق فوجی صدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ موقف بھی اختیار کیا تھا کہ اُنھوں نے بطور آرمی چیف ہنگامی حالت نافذ کی تھی اس لیے صرف فوجی عدالت ہی اُن کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔
پرویز مشرف کے وکلا کا کہنا ہے کہ اُن کے موکل نے اُس وقت کے وزیراعظم اور سینیئر فوجی کمانڈروں سمیت دیگر متعلقہ افراد سے مشاورت کے بعد ہی ایمرجنسی نافذ کی تھی اس لیے محض ایک شخص کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی کارروائی کا آغاز درست اقدام نہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق سابق صدر کے گھر سے عدالت جانے والے راستے پر منگل کی صبح پانچ کلو گرام دھماکا خیز مواد برآمد ہوا جسے بم ڈسپوزل اسکواڈ نے ناکارہ بنا دیا۔
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ریاض احمد خان نے سابق صدر پرویز مشرف کی دائر کردہ درخواستوں کی سماعت کے بعد پیر کو انھیں مسترد کر دیا۔ عدالت کی طرف سے مختصر فیصلہ ہی سنایا گیا جس میں ان درخواستوں کو مسترد کرنے کی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔
پرویز مشرف نے اپنی درخواستوں میں غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کے طریقہ کار اور اس میں ججوں کی تعیناتی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
سابق صدر کے وکلاء نے اس مقدمے کے لیے حکومت کے پراسکیوٹر اکرم شیخ کی تقرری کو چیلنج کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف ذاتی عناد رکھتے ہیں۔
اس بار ے میں پرویز مشرف کے ایک وکیل محمد علی سیف نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ’’ہزاروں، لاکھوں وکلا ہیں۔ اعلٰی سینیئر وکیل موجود ہیں اُن میں کسی (غیر جانبدار) کو جس کا ذہن، جس کے خیالات اور جس کا سابقہ کردار بالکل غیر جانبدار ہو۔ اُس نے پرویز مشرف کے خلاف کسی منفی رائے کا اظہار نا کیا ہو اس کو بے شک (پراسکیوٹر) مقرر کر دیا جائے ۔‘‘
تاہم وفاقی حکومت میں شامل وزرا اس مقدمے سے متعلق کسی بھی طرح کی جانبداری کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہتے آئے ہیں کہ عدالتیں بالکل آزاد ہیں اور اُن کے فیصلوں پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
حکومت نے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دے رکھی ہے جس نے غداری سے متعلق مقدمے کی ابتدائی سماعت کے لیے پرویز مشرف کو 24 دسمبر کو طلب کر رکھا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواستوں کے مسترد ہونے کے بعد اب توقع ہے کہ پرویز مشرف منگل کو خصوصی عدالت کے روبرو پیش ہوں گے۔
عدالت میں سماعت سے قبل سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
سابق فوجی صدر نے تین نومبر 2007 کو بطور آرمی چیف ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین کو معطل کر دیا تھا، جس پر حکومت نے اُن کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔
سابق فوجی صدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ موقف بھی اختیار کیا تھا کہ اُنھوں نے بطور آرمی چیف ہنگامی حالت نافذ کی تھی اس لیے صرف فوجی عدالت ہی اُن کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے۔
پرویز مشرف کے وکلا کا کہنا ہے کہ اُن کے موکل نے اُس وقت کے وزیراعظم اور سینیئر فوجی کمانڈروں سمیت دیگر متعلقہ افراد سے مشاورت کے بعد ہی ایمرجنسی نافذ کی تھی اس لیے محض ایک شخص کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی کارروائی کا آغاز درست اقدام نہیں۔