مقدمے کی سماعت کے دوران نوشہرہ اور لکی مروت میں ضمنی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے علاوہ متحلقہ سرکاری عہدداروں نے عدالت میں بھی اپنے بیانات ریکارڈ کروائے۔
پشاور —
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختون خواہ کی عدالتِ عالیہ ’پشاور ہائی کورٹ‘ نے حالیہ ضمنی انتخابات کے دوران بعض علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کی اطلاعات کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ حلقوں کے سرکاری نتائج کا اعلان نا کرنے کا حکم دیا ہے۔
بائیس اگست کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے دوران قومی اسمبلی کے دو حلقوں کے بعض پولنگ اسٹیشنز پر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کی خبروں پر پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے رکھا تھا۔
پیر کو ابتدائی سماعت کے بعد پر چیف جسٹس دوست محمد خان نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے کی تحیقات کرے جب کہ نوشہرہ اور لکی مروت کے اضلاع میں ان پولنگ پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ ووٹنگ کرائی جائے جہاں یا تو خواتین کو بالکل ہی ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا یا جہاں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح برائے نام تھی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران نوشہرہ اور لکی مروت میں ضمنی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے علاوہ متعلقہ سرکاری عہدداروں نے بھی عدالت میں اپنے بیانات قلم بند کروائے۔
پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے ایک سینیئر وکیل شیر افضل مروت نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’پشاور ہائی کورٹ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا ہے کہ خواتین کو کسی بھی صورت میں ... ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔‘‘
اطلاعات کے مطابق انتخابات سے قبل مقامی سیاسی عہدیداروں اور عمائدین نے مبینہ طور پر ایک معاہدے کے تحت خواتین کو ووٹ ڈالنے سے باز رکھا۔
چیف جسٹس نے نوشہرہ اور لکی مروت کی مقامی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ تحقیقات کرکے ایسے کسی بھی معاہدے میں شامل افراد کے خلاف کارروائی کریں اور الیکشن کمیشن کو ان حلقوں میں انتخابات کے نتائج روکنے کا بھی حکم جاری کیا۔
نوشہرہ سے قومی اسمبلی کی نشست خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور لکی مروت کی نشست جمعیت علماء اسلام کے سربراہ فضل الرحمٰن نے خالی کی تھی۔
غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق دونوں نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو برتری حاصل ہوئی ہے۔
بائیس اگست کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے دوران قومی اسمبلی کے دو حلقوں کے بعض پولنگ اسٹیشنز پر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کی خبروں پر پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے رکھا تھا۔
پیر کو ابتدائی سماعت کے بعد پر چیف جسٹس دوست محمد خان نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے کی تحیقات کرے جب کہ نوشہرہ اور لکی مروت کے اضلاع میں ان پولنگ پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ ووٹنگ کرائی جائے جہاں یا تو خواتین کو بالکل ہی ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا یا جہاں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح برائے نام تھی۔
مقدمے کی سماعت کے دوران نوشہرہ اور لکی مروت میں ضمنی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے علاوہ متعلقہ سرکاری عہدداروں نے بھی عدالت میں اپنے بیانات قلم بند کروائے۔
پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے ایک سینیئر وکیل شیر افضل مروت نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’پشاور ہائی کورٹ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا ہے کہ خواتین کو کسی بھی صورت میں ... ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔‘‘
اطلاعات کے مطابق انتخابات سے قبل مقامی سیاسی عہدیداروں اور عمائدین نے مبینہ طور پر ایک معاہدے کے تحت خواتین کو ووٹ ڈالنے سے باز رکھا۔
چیف جسٹس نے نوشہرہ اور لکی مروت کی مقامی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ تحقیقات کرکے ایسے کسی بھی معاہدے میں شامل افراد کے خلاف کارروائی کریں اور الیکشن کمیشن کو ان حلقوں میں انتخابات کے نتائج روکنے کا بھی حکم جاری کیا۔
نوشہرہ سے قومی اسمبلی کی نشست خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور لکی مروت کی نشست جمعیت علماء اسلام کے سربراہ فضل الرحمٰن نے خالی کی تھی۔
غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق دونوں نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو برتری حاصل ہوئی ہے۔