سابق فوجی صدر کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ وفاقی حکومت کا 15 دن کے لیے صوابیدی اختیار ہے اور چاہے تو اس فیصلے خلاف اپیل بھی کر سکتی ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کی ایک عدالت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کرنے کی درخواست منظور کر لی ہے لیکن اس عدالتی فیصلے کا اطلاق 15 روز بعد ہو گا۔
سابق صدر نے سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی تھی کہ وہ علاج اور اپنی علیل والدہ سے ملنے کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں لہذا ان کا نام ان افراد کی فہرست سے خارج کیا جائے جنہیں پاکستان سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
اس درخواست پر سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے 29 مئی کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو جمعرات کو سنایا گیا۔
پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں عدالت کے فیصلے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’آج کا حکم 15 دن کے بعد نافذ العمل ہو گا۔ یعنی پندرہ تک کے لیے وہ میمورنڈم نافذ العمل ہو گا، جس کے تحت مشرف صاحب کو ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا اور جس کو (اب) کالعدم قرار دے دیا گیا۔‘‘
فروغ نسیم نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کا 15 دن کے لیے صوابیدی اختیار ہے۔
’’(حکومت) مشرف کا نام ای سی ایل سے نکال سکتی ہے، اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر کر سکتی ہے اور نہیں بھی کر سکتی۔‘‘
پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ اب اس ضمن میں کوئی ابہام باقی نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ سابق صدر اگر ملک سے باہر گئے تو واپس آئیں گے کیوں کہ وہ اپنے خلاف قائم مقدمات سے بری ہونا چاہتے ہیں۔
پرویز مشرف کے وکلا یہ دلائل دیتے آئے ہیں کہ تمام عدالتیں ان کے موکل کو ضمانت پر رہا کر چکی ہیں اور کسی عدالت کی طرف سے اُن پر ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد نہیں کی گئی لہذا انھیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دینا انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔
سابق صدر پر پاکستان کی عدالتوں میں مختلف مقدمات چل رہے ہیں جن میں سب سے اہم تین نومبر 2007ء کو آئین معطل کر کے ملک میں ایمرجنسی نافذ پر آئین شکنی کا مقدمہ بھی شامل ہے۔
آئین شکنی کے مقدمے میں 31 مارچ کو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی گئی تھی لیکن سابق صدر نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُنھوں نے 44 سال فوج میں خدمات سر انجام دیں اور ملک کا مفاد ہمیشہ اُن کے پیش نظر رہا۔
اُن کا موقف رہا ہے کہ ایمرجنسی کا نفاذ اُنھوں نے اُس وقت کے وزیراعظم اور سیاسی قیادت کے علاوہ عسکری کمانڈروں کی مشاورت سے کیا تھا۔
جمعرات ہی کو اسلام آباد کی ایک عدالت نے لال مسجد کے سابق نائب خطیب مولانا عبد الرشید غازی کے قتل سے متعلق مقدمے میں پرویز مشرف کو یکم جولائی کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
سابق فوجی صدر کو رواں سال دو جنوری کو سینے میں تکلیف کے باعث راولپنڈی میں افواج پاکستان کے امراض قلب کے اسپتال داخل کروا دیا گیا تھا جہاں وہ لگ بھگ تین ماہ تک زیر علاج رہے۔
ان دنوں پرویز مشرف کراچی میں مقیم ہیں اور ایک نئی طبی رپورٹ کے مطابق اُن کی ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف ہے جس کا علاج سابق صدر کے وکلا کے مطابق پاکستان میں ممکن نہیں۔
سابق صدر نے سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی تھی کہ وہ علاج اور اپنی علیل والدہ سے ملنے کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں لہذا ان کا نام ان افراد کی فہرست سے خارج کیا جائے جنہیں پاکستان سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
اس درخواست پر سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے 29 مئی کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو جمعرات کو سنایا گیا۔
پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں عدالت کے فیصلے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’آج کا حکم 15 دن کے بعد نافذ العمل ہو گا۔ یعنی پندرہ تک کے لیے وہ میمورنڈم نافذ العمل ہو گا، جس کے تحت مشرف صاحب کو ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا اور جس کو (اب) کالعدم قرار دے دیا گیا۔‘‘
فروغ نسیم نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کا 15 دن کے لیے صوابیدی اختیار ہے۔
’’(حکومت) مشرف کا نام ای سی ایل سے نکال سکتی ہے، اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر کر سکتی ہے اور نہیں بھی کر سکتی۔‘‘
پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ اب اس ضمن میں کوئی ابہام باقی نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ سابق صدر اگر ملک سے باہر گئے تو واپس آئیں گے کیوں کہ وہ اپنے خلاف قائم مقدمات سے بری ہونا چاہتے ہیں۔
پرویز مشرف کے وکلا یہ دلائل دیتے آئے ہیں کہ تمام عدالتیں ان کے موکل کو ضمانت پر رہا کر چکی ہیں اور کسی عدالت کی طرف سے اُن پر ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد نہیں کی گئی لہذا انھیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دینا انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔
سابق صدر پر پاکستان کی عدالتوں میں مختلف مقدمات چل رہے ہیں جن میں سب سے اہم تین نومبر 2007ء کو آئین معطل کر کے ملک میں ایمرجنسی نافذ پر آئین شکنی کا مقدمہ بھی شامل ہے۔
آئین شکنی کے مقدمے میں 31 مارچ کو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی گئی تھی لیکن سابق صدر نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُنھوں نے 44 سال فوج میں خدمات سر انجام دیں اور ملک کا مفاد ہمیشہ اُن کے پیش نظر رہا۔
اُن کا موقف رہا ہے کہ ایمرجنسی کا نفاذ اُنھوں نے اُس وقت کے وزیراعظم اور سیاسی قیادت کے علاوہ عسکری کمانڈروں کی مشاورت سے کیا تھا۔
جمعرات ہی کو اسلام آباد کی ایک عدالت نے لال مسجد کے سابق نائب خطیب مولانا عبد الرشید غازی کے قتل سے متعلق مقدمے میں پرویز مشرف کو یکم جولائی کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
سابق فوجی صدر کو رواں سال دو جنوری کو سینے میں تکلیف کے باعث راولپنڈی میں افواج پاکستان کے امراض قلب کے اسپتال داخل کروا دیا گیا تھا جہاں وہ لگ بھگ تین ماہ تک زیر علاج رہے۔
ان دنوں پرویز مشرف کراچی میں مقیم ہیں اور ایک نئی طبی رپورٹ کے مطابق اُن کی ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف ہے جس کا علاج سابق صدر کے وکلا کے مطابق پاکستان میں ممکن نہیں۔