’ایچ آر سی پی‘ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایک نئے تعمیراتی منصوبے سے شہر کراچی میں دہائیوں پرانے ہندو مندر شری رتناور ماہادیو کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اسلام آباد —
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کراچی شہر کے کلفٹن کے علاقے میں نئے رہائشی اور کاروباری تعمیراتی منصوبوں کے لیے بنائے جانے والے پل اور زیر زمین سٹرکوں کی تعمیرات کا نوٹس لیتے ہوئے مقامی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ دو ہفتوں میں اس بارے میں عدالت میں رپورٹ پیش کی جائے۔
عدالت کی طرف سے یہ نوٹس پاکستان میں انسانی حقوق کی ایک بڑی تنظیم ’ایچ آر سی پی‘ کے بیان پر لیا گیا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ یہ تعمیرات ماحولیاتی اثرات سے متعلق تحقیقات کیے بغیر کی جا رہی ہیں اور ان سے شہر کراچی میں دہائیوں پرانے ہندو مندر شری رتناور ماہادیو کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تنظیم کی سربراہ زہرہ یوسف نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ
’’ہمارے ممبر جو کہ سول انجینئیر بھی ہیں، اُنھوں نے سائٹ کا دورہ کیا اور ہماری رائے ہے کہ زیادہ ٹریفک سے اس سے مندر کو نقصان ہو گا کیونکہ وہ عمارت بہت کمزور ہے۔‘‘
زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق ریاستی سطح پر کسی قسم کی کوتاہی غیر مسلم آبادی میں احساس محرومی کا سبب بنتی ہے۔
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز رمیش کمار عدالت عظمیٰ کے نوٹس اور اقلیتوں کے مسائل کے بارے میں کہتے ہیں۔
’’عدالت نے از خود نوٹس تو لیا ہے لیکن (تعمیراتی) کام کو روکنے کا حکم بھی دینا چاہیئے تھا، وہ نہیں دیا گیا اس لیے وہاں کام تیزی سے جاری ہے.... حکومت کو خود سوچنا چاہیئے کے اقلیتوں کے حقیقی مسائل ہیں جن کو حل کرنا چاہیئے۔ مگر حکومت کہہ رہی کہ اور بہت بڑے مسئلے مسائل ہیں اُن میں وہ مصروف ہے۔‘‘
حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں مذہبی اقیلیتوں کو تحفظ اور مذہبی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے.
تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں بار ہا یہ کہہ چکی ہیں کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور دہشت گردی غیر مسلم آبادی کے حقوق کیے لیے خطرہ ہے اور اس کے لیے ریاستی سطح پر موثر اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔
عدالت کی طرف سے یہ نوٹس پاکستان میں انسانی حقوق کی ایک بڑی تنظیم ’ایچ آر سی پی‘ کے بیان پر لیا گیا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ یہ تعمیرات ماحولیاتی اثرات سے متعلق تحقیقات کیے بغیر کی جا رہی ہیں اور ان سے شہر کراچی میں دہائیوں پرانے ہندو مندر شری رتناور ماہادیو کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تنظیم کی سربراہ زہرہ یوسف نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ
’’ہمارے ممبر جو کہ سول انجینئیر بھی ہیں، اُنھوں نے سائٹ کا دورہ کیا اور ہماری رائے ہے کہ زیادہ ٹریفک سے اس سے مندر کو نقصان ہو گا کیونکہ وہ عمارت بہت کمزور ہے۔‘‘
زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق ریاستی سطح پر کسی قسم کی کوتاہی غیر مسلم آبادی میں احساس محرومی کا سبب بنتی ہے۔
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز رمیش کمار عدالت عظمیٰ کے نوٹس اور اقلیتوں کے مسائل کے بارے میں کہتے ہیں۔
’’عدالت نے از خود نوٹس تو لیا ہے لیکن (تعمیراتی) کام کو روکنے کا حکم بھی دینا چاہیئے تھا، وہ نہیں دیا گیا اس لیے وہاں کام تیزی سے جاری ہے.... حکومت کو خود سوچنا چاہیئے کے اقلیتوں کے حقیقی مسائل ہیں جن کو حل کرنا چاہیئے۔ مگر حکومت کہہ رہی کہ اور بہت بڑے مسئلے مسائل ہیں اُن میں وہ مصروف ہے۔‘‘
حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں مذہبی اقیلیتوں کو تحفظ اور مذہبی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے.
تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں بار ہا یہ کہہ چکی ہیں کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور دہشت گردی غیر مسلم آبادی کے حقوق کیے لیے خطرہ ہے اور اس کے لیے ریاستی سطح پر موثر اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔