پاکستان کی ایک عدالت نے پاک ترک اسکولز کے ترک عملے کی ملک بدری کو روکتے ہوئے حکام سے جواب طلب کیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے منگل کو اس اسکول سسٹم کے اساتذہ کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت شروع کی۔
درخواست گزاروں کا موقف تھا کہ وزارت داخلہ نے پاک ترک اسکولز کے اساتذہ کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے جو کہ طلبا کے حصول تعلیم کے آئینی حق کے خلاف ہے۔
اسکولز کے تقریباً 147 طلبا کے والدین نے بھی اپنی درخواست میں ایسا ہی موقف اختیار کیا اور عدالت سے استدعا کی کہ وہ حکومت کو ترک اساتذہ کی ملک بدری سے روکے۔
عدالت نے سماعت کے بعد وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سال 17 جنوری تک جواب داخل کرنے کا کہا ہے۔
پاک ترک اسکول کے طلبا اور اساتذہ نے منگل کو لاہور میں پنجاب اسمبلی کے باہر حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔
رواں ماہ ہی پشاور کی ہائی کورٹ نے بھی اسکول کے ترک عملے کے ملک بدری پر حکم امتناع جاری کیا تھا اور اس معاملے کی دوسری سماعت یکم دسمبر کو ہوگی۔
رواں ماہ ہی حکومت پاکستان نے پاک ترک اسکول کے ترک عملے کے ویزے میں توسیع نہ کرتے ہوئے انھیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔
ترک حکومت ان اسکولوں کو ایک جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن کی تنظیموں سے وابستہ قرار دیتی ہے اور اس کا الزام ہے کہ جولائی میں صدر رجب طیب اردوان کے خلاف ہونے والی ناکام بغاوت کی منصوبہ بندی گولن نے کی تھی۔
تاہم گولن اس الزام کو مسترد کرتے ہیں جب کہ پاک ترک اسکولز کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان کا گولن سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
رواں ماہ ہی پاکستان کے دورے کے موقع پر ترک صدر کا کہنا تھا کہ گولن کی تنظیم نہ صرف ترکی بلکہ پاکستان کے لیے بھی خطرہ ہے۔
دو دہائیاں قبل قائم ہونے والے ان اسکولز میں ایک اندازے کے مطابق 11 ہزار طلبا زیر تعلیم ہیں۔