پاکستانی وزیرِ اعظم کو کابل کے دورے کی دعوت پر مشاورت جاری

وزیرِ اعظم ہاؤس کا کہنا ہے کہ اس بارے میں اب تک باضابطہ طور پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی کی طرف سے پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کو دورۂ افغانستان کی دعوت پر اسلام آباد نے تاحال کوئی باضابطہ اعلان تو نہیں کیا البتہ حکام کا کہنا ہے کہ اس بارے میں غور کیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ نے پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت دورۂ کابل کی دعوت کا احتیاط سے جائزہ لے رہی ہے تاکہ اس بارے میں وزیرِ اعظم کے لیے سمری تیار کی جا سکے۔

وزیرِ اعظم ہاؤس کا کہنا ہے کہ اس بارے میں اب تک باضابطہ طور پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

گزشتہ اختتامِ ہفتہ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ نے اپنے افغان ہم منصب حنیف اتمر کی دعوت پر کابل کا دورہ کیا تھا۔

اس دورے کے دوران اُنھوں نے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی تھی۔

ملاقات کے دوران افغان صدر نے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم پاکستان کو دورے کی دعوت دینے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان ریاست کی سطح پر مذاکرات کا عمل شروع کرنا ہے۔

فروری کے اواخر میں کابل پراسس نامی کانفرنس کے موقع پر بھی افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں نئی شروعات کی بات کی تھی۔

واشنگٹن میں پاکستان کی سابق سفیر اور پاکستانی پارلیمان کی ایوانِ بالا کی رکن سینیٹر شیری رحمٰن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور افغانستان کو اپنے تعلقات بہتر کرنے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ افغانستان میں اتنے برسوں سے طاقت کے استعمال کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس مسئلے کا عسکری حل نہیں ہے۔

"میں سمجھتی ہوں کہ یہ ناگزیر ہے کہ دونوں ممالک ایک بہتر رشتے کی طرف بڑھنے کی کوشش کریں۔ ایک ڈھانچہ بنائیں جس کے مطابق ایک مستقل کمیشن ہو تاکہ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا تسلسل جاری رہے۔‘‘

شیری رحمٰن نے کہا کہ پاکستان کو مشاورت کے بعد افغانستان کو جلد جواب دینا چاہیے اور "اس موقع کو ضرور استعمال کرنا چاہیے۔"

تجزیہ کار قمر چیمہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ ریاست کی سطح پر افغانستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کی پیش کش ایک مثبت پیش رفت ہے جس کا اسلام آباد کو جلد مثبت جواب دینا چاہیے۔

اُنھوں نے کہا کہ اعلیٰ سطح پر سیاسی رابطے اعتماد سازی کے لیے ضروری ہیں۔

"اب تک سیکرٹری خارجہ اور دیگر عہدیداروں کی سطح پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اعلیٰ قیادت کو اب کردار ادا کرنا ہو گا۔"

دہشت گردوں کی ایک دوسرے کی سرزمین پر موجودگی کے الزامات پر حالیہ برسوں میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں۔

تاہم اب ایک مرتبہ پھر دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں میں اضافہ ہوا ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اعلیٰ سطحی سیاسی ملاقاتوں سے اختلافات ختم ہونے میں مدد ملے گی۔