افغانستان سے عسکریت پسندوں کی دراندازی ناقابلِ برداشت

جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل جان ایلن (فائل فوٹو)

پاکستان نے افغان عسکریت پسندوں کی در اندازی کو ’’ناقابلِ برداشت‘‘ قرار دیتے ہوئے اتحادی افواج پر زور دیا ہے کہ ان کارروائیوں کو روکا جائے۔

بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یہ مطالبہ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان ایلن سے بدھ کو راولپنڈی میں ملاقات میں کیا۔

عسکری قائدین کی ملاقات ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب سرحد کے دونوں اطراف طالبان جنگجوؤں کی کارروائیوں میں حالیہ اضافہ پاک امریکہ تعلقات میں مزید کشیدگی کا باعث بنا ہے۔

ملاقات کا بنیادی مقصد پاک افغان سرحد پر آپریشنز میں تعاون سے متعلق اقدامات پر پیش رفت کا جائزہ لینا تھا مگر بظاہر بات چیت کا مرکزی نقطہ عسکریت پسندوں کی سرحد کے آر پار نقل و حرکت ہی رہا۔

پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق جنرل کیانی نے نیٹو کمانڈر سے بات چیت کے دوران افغان حدود میں سرگرم عسکریت پسندوں کی پاکستان میں در اندازی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ مستقبل میں اس نوعیت کے واقعات برداشت نہیں کیے جائیں گے۔

پاکستانی فوج کے سپہ سالار نے امریکی کمانڈر پر زور دیا کہ نیٹو اور افغان افواج ان عناصر کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات کریں۔

حالیہ دنوں میں افغان سرحد کی جانب سے عسکریت پسندوں کے حملوں میں 14 پاکستانی سرحدی محافظ ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ کم از کم چار تاحال لاپتا ہیں اور بعض اطلاعات کے مطابق اُنھیں بھی قتل کر دیا گیا ہے۔

پاکستان نے ان کارروائیوں پر افغان حکومت سے باضابطہ طور پر شدید احتجاج کرتے ہوئے ان کے سدِباب کے لیے مناسب اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

لیکن دوسری جانب نیٹو کمانڈر جنرل جان ایلن اور افغان حکام نے حالیہ دنوں میں کابل اور دیگر سرحدی اضلاع میں اتحادی افواج اور دیگر تنصیبات پر مہلک حملوں کا ذمہ داری شمالی وزیرستان میں مفرور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کو ٹھرایا ہے۔ امریکی حکام ماضی میں ہی الزام بھی عائد کرتے آئے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستان کے بعض ریاسی عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے۔

لیکن پاکستان ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتا ہے اور وزیر اعظم کے مشیر داخلہ رحمٰن ملک نے بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں ایک مرتبہ پھر اس موقف کو دہرایا۔

مشیر داخلہ رحمٰن ملک

’’میں ان الزامات کی صریحاً نفی کرتا ہوں اور اہم بات یہ ہے کہ اگر اس سلسلے میں کسی ادارے کے خلاف کوئی شواہد موجود ہیں تو وہ پاکستان کو فراہم کیے جائیں، ہم بخوشی ان کا جائزہ لیں گے۔‘‘

شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع کرنے کے لیے امریکی حکام پاکستان پر مسلسل دباؤ بھی ڈالتے آئے ہیں، لیکن پاکستان کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ اس کی افواج زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھ کر کسی نئی کارروائی کے وقت کا تعین کریں گی۔

پاک امریکہ تعلقات میں موجودہ تناؤ کی ایک اور بڑی وجہ اتحادی افواج کو رسد کی ترسیل کرنے والے قافلوں کے لیے سرحد کی بندش بھی ہے، جو سلالہ کی سرحدی چوکی پر نومبر میں نیٹو کے فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے برقرار ہے۔