سیاچن پر پاک بھارت مذاکرات جون میں

پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاچن گلیشیئر کے تنازع پر مذاکرات کا اگلا دور 11 جون کو اسلام آباد میں ہوگا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے کہا ہے کہ سیکرٹری دفاع کی سطح پر سیاچن پر ہونے والی دو روزہ بات چیت پاک بھارت مذاکراتی عمل کا حصہ ہے۔

’’ہم تمام اُمور کو بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے خواہاں ہیں، اور سیاچن بھی اس کا حصہ ہے کیونکہ یہ دونوں ملکوں کے لیے وجہ پریشانی ہے۔‘‘

گیاری سیکٹر میں امدادی کارروائیاں جاری

سیاچن پر پاکستانی فوج کے ایک بٹالین ہیڈکوارٹرز پر 7 اپریل کو ایک بہت بڑا برفانی تودہ گرنے سے 140 فوجی اور شہری اس کے نیچے دب گئے اور ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان کی تلاش کا کام جاری ہے۔

دنیا کا بلند ترین میدان جنگ کہلانے والے سیاچن گلیشیئر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ 1984ء میں اُس وقت شروع ہوا جب بھارتی افواج نے پیش قدمی کرتے ہوئے اس 78 کلومیٹر طویل برفانی پہاڑ پر چار میں سے تین اہم دروں پر قبضہ کرکے بلند چوٹیوں پر اپنی چوکیاں قائم کر لیں۔

پاکستان نے بھی جواباً اپنی افواج کو سیاچن پر تعینات کر دیا اور چوتھے درے پر اُس کا کنٹرول ہے۔

غربت کا شکار دونوں ملکوں کو اپنی افواج کو اس بلندی پر تعینات رکھنے کے لیے سالانہ اربوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں جب کہ شدید سرد موسم کے باعث بھارتی اور پاکستانی افواج کو مسلسل جانی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سیاچن تنازعے کے آغاز سے اب تک بھارت اور پاکستان کے مجموعی طور پر آٹھ ہزار سے زائد فوجی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے ایک ہزار سے بھی کم سرحدی جھڑپوں میں مارے گئے جب کہ سات ہزار سے زائد ہلاکتوں کی وجہ اس خطے کا سفاکانہ سرد موسم ہے۔

گزشتہ ماہ گیاری سیکٹر میں پاکستانی فوجی تنصیب پر برفانی تودہ گرنے کے واقعے کے بعد دونوں ملکوں سے ایک بار پھر اس ’’بے مقصد‘‘ جنگ کے خاتمے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے گزشتہ ماہ گیاری سیکٹر کے دورے کے موقع پر سیاچن کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے اس تنازعے کے حل کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

دونوں ملکوں کے درمیان سیاچن کو حل کرنے کے لیے بات چیت کے متعدد ادوار ہو چکے ہیں جن میں پاکستان دونوں افواج کو 1984ء سے پہلے والے مورچوں میں واپسی پر اصرار کرتا آیا ہے جب کہ بھارت پاکستان سے افواج کے موجودہ مقامات کی تصدیق چاہتا ہے۔

رواں ہفتے بھارتی وزیرِ دفاع اے کے انٹونی نے پارلیمان کو بتایا تھا کہ کسی بھی پیش رفت سے قبل پاکستان کو اپنی فوجی پوزیشنیں ظاہر کرنی ہوں گی۔

بھارتی وزیر دفاع اے کے انٹونی

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس تنازعے کے حل کے لیے بات چیت کے تازہ ترین دور سے زیادہ توقعات وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ’’(بات چیت کے اگلے دور سے) ڈرامائی نتائج کی توقع نہ کریں۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔‘‘

بھارتی میڈیا میں بھی مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کے بارے میں تحفظات کا اظہار اور حکومت کو دفاعی لحاظ سے ایک اہم خطے سےدستبردار ہونے سے باز رہنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔

اس کے برعکس پاکستان میں ذرائع ابلاغ میں سیاسی اور فوجی قائدین کو یہ مشورہ دیا جا رہے کہ وہ بھاری مالی اور جانی نقصانات کے سلسلے کو روکنے کے لیے یکطرفہ طور پر سیاچن سے اپنی افواج کو واپس بلا لیں۔

لیکن پاکستانی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ٹھوس یقین دہانی کے بغیر انخلاء کا فیصلہ بھارت کو خطے میں مزید پیش رفت کا موقع فراہم کرے گا بالکل اُسی طرح جس طرح اُس نےمبینہ طور پر شمالہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 1984ء میں سیاچن پر فوج کشی کی تھی۔ فوج کے ایک اعلٰی افسر کے بقول یکطرفہ انخلاء کسی صورت ممکن نہیں۔

’’دفاعی حکمت عملی ایسے کسی یکطرفہ اقدام کا تقاضا نہیں کرتی کیونکہ سیاچن سے پاکستانی افواج کے انخلاء سے گلگت اور سکردو بھارت کے لیے آسان ہدف بن جائیں گے۔‘‘