الزام تراشی ترک کرکے تعمیری تعلقات پر زور

الزام تراشی ترک کرکے تعمیری تعلقات پر زور

پاکستان نے کہا ہے کہ افغانستان کو الزام تراشی کی روش ترک کرکے تعمیری اور مفید تعلقات کی طرف پیش رفت کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میں جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں اور ان میں بے گناہ افراد کی ہلاکت کی ان کا ملک سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔

دو روز قبل یومِ عاشور کے موقع پر افغانستان میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات میں کم از کم 59 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں اکثریت کابل میں ہونے والے ماتمی اجتماع میں شریک شیعہ عزاداروں کی تھی۔ افغان حکام کے بقول ان حملوں میں پاکستانی انتہا پسند تنظیم لشکر جھنگوی ملوث تھی۔

لیکن پاکستانی حکام نے افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ اگر ان کے پاس اس بارے میں ٹھوس شواہد ہیں تو پاکستان سے ان کا تبادلہ کیا جائے۔

ترجمان عبدالباسط نے کہا کہ ’’اگر کوئی شواہد ہیں تو ان کا باضابطہ طور پر تبادلہ کیا جائے کیونکہ پاکستان اور اس کے عوام نے ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عزم کر رکھا ہے۔‘‘

اُن کا کہنا تھا کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی ایک مشترکہ اور عالمی مسائل ہیں جس سے ’’ہم کو مل کر نمٹنا ہو گا‘‘۔

اُدھر افغان صدر حامد کرزئی کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ کابل حملے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے اور اب یہ پتہ لگانا پاکستان کا کام ہے لشکر جھنگوی نے کسی مقام سے یہ رابطہ کر کے یہ دعویٰ کیا۔ بقول افغان ترجمان کے پاکستان کو شواہد کے لیے انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔

تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں نے بہت محنت سے گزشتہ تین سالوں کے دوران دو طرفہ تعلقات کو بہتر کیا ہے اور پاکستان سمجھتا ہے کہ اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے تہمت اور الزام تراشی سے پاک ماحول ناگزیر ہے۔

دو طرفہ تعلقات میں پیش رفت کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستانی درس گاہوں میں 6,000 سے زائد افغان زیر تعلیم ہیں جب کہ افغانستان میں 40 سے 50 ہزار پاکستانی وہاں پر تعمیر نو اور اقتصادی سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔

لیکن دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ افغان حکومت کی طرف سے پاکستان پر سرعام بے بنیاد الزامات لگانے کی پالیسی مسائل کا باعث بنتی ہے۔

’’اب وقت آگیا ہے کہ الزام تراشی کے اس کھیل سے باہر نکل کر تعمیری اور مفید تعاون کی طرف پیش رفت کی جائے۔‘‘