وزیرِ اعظم نواز شریف کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے ایک بار پھر حکومت کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے مفاہمت کے عمل کی معاونت کرتا رہے گا۔
انہوں نے اسلام آباد میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان نے افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ملاقات کی میزبانی کی اور اس یقین کی بنیاد پر کہ ایک پرامن اور خوشحال افغانستان علاقے کے بہترین مفاد میں ہے ہمارا ملک امن کے عمل کی حمایت کو جاری رکھے گا۔‘‘
دریں اثنا، پاکستان نے افغانستان کے صوبہ خوست کے قریب ایک خود کش کار بم دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل نے اپنے ایک مختصر بیان میں اس بم حملے میں ہلاک ہونے والے افغان شہریوں کے خاندانوں سے تعزیت کا اظہار بھی کیا۔
افغان حکام کے مطابق پاکستانی سرحد کے قریب صوبہ خوست میں ایک امریکہ فوجی اڈے سے کچھ فاصلے پر اتوار کی شام ایک خودکش بمبار نے آتشگیر مواد سے بھری گاڑی کو سکیورٹی فورسز کی چوکی قریب دھماکے سے اڑا دیا۔
اس حملے میں کم از کم 25 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کی زیادہ تر تعداد عام شہریوں کی ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ اس حملے میں کون ملوث ہے مگر طالبان نے ماضی میں ہونے والے ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
یہ حملہ ایسا وقت کیا گیا جب چند روز قبل افغان طالبان کے ایک وفد نے افغان حکومت کے نمائندوں سے پاکستان کے سیاحتی مقام مری میں ملاقات کی۔
افغانستان کی موجودہ حکومت اور افغان طالبان کے درمیان یہ پہلا باضابطہ رابطہ تھا۔ پاکستان کی میزبانی میں ہونے ان مذاکرات میں چین اور امریکہ کے نمائندے بھی شریک تھے اور کابل حکومت نے مصالحت کے لیے کی جانے والی اس کوشش پر اسلام آباد کا شکریہ بھی ادا کیا۔
اطلاعات کے مطابق بعض طالبان دھڑے ان مذاکرات سے خوش نہیں، مگر طالبان قیادت کی جانب سے ایسا کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔
2001 میں طالبان حکومت ختم ہونے کے بعد ملک میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے اس سے قبل بھی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کئی کوششیں ہو چکی ہیں اور اس سلسلے میں قطر میں طالبان کا ایک دفتر بھی کھولا گیا مگر ان کوششوں میں خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل کی جا سکی۔