پاکستان نے پیر کو بھارتی پنجاب کے شہر گرداس پور میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس میں ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
پاکستانی سرحد کے قریب واقع ضلع گرداس پور میں مشتبہ دہشت گردوں نے ایک بس اڈے پر حملے کے بعد پولیس اسٹیشن پر دھاوا بول دیا تھا جہاں ان کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ بھی ہوئی۔ واقعے میں کم ازکم نو افراد ہلاک ہوئے۔
دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی تمام صورتوں میں شدید مذمت کرتا ہے اور بھارت میں دہشت گرد واقعے میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کے خاندانوں اور حکومت سے ہمدری اور افسوس کا اظہار کرتا ہے۔
بھارت اپنے ہاں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کا الزام اکثر پاکستان میں موجود کالعدم تنظیموں پرعائد کرتا آیا ہے اور پیر کو بھی ایک حکومتی عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس تازہ واقعے میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
نومبر 2008ء کو ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کا الزام بھی پاکستان میں موجود کالعدم تنظیم لشکر طیبہ پر عائد کیا گیا تھا جب کہ پاکستان نے اس پر اپنے ہاں اس حملے کے مبینہ منصوبہ ساز ذکی الرحمن لکھوی سمیت چھ افراد کے خلاف قانونی کارروائی بھی شروع کر رکھی ہے۔
لکھوی ان دنوں ضمانت پر رہا ہیں اور بھارت اس بارے میں اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ ممبئی حملوں میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے میں غیر سنجیدہ ہے۔
تاہم اسلام آباد کا موقف ہے کہ لکھوی پر قانون کے مطابق مقدمہ چلایا جا رہا ہے اور اس معاملے میں تاخیر بھارت کی طرف سے شواہد اور درکار قانونی دستاویزات کی عدم فراہمی کے باعث ہو رہی ہیں۔
دہشت گردی کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے مابین متنازع علاقے کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور سیالکوٹ میں ورکنگ باؤنڈری پر فائربندی کی خلاف ورزیوں کے واقعات کے باعث تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہیں۔
دونوں ملک فائر بندی کی خلاف ورزیوں میں پہل کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان رواں ماہ روس کے شہر اوفا میں ملاقات ہوئی تھی جس میں سرحد پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اقدام پر اتفاق کیا گیا تھا۔