شمالی وزیرستان میں تقریباً چھ ماہ کے وقفے سے ڈرون طیاروں سے دو حملے کیے گئے جن میں کم ازکم 16 افراد ہلاک ہوئے۔
اسلام آباد —
پاکستان نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں مشتبہ امریکی ڈرون طیاروں کے تازہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کارروائیوں کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
بدھ کو دیر گئے درگاہ منڈی اور جمعرات کو علی الصبح ڈانڈے درپہ خیل میں بغیر ہواباز کے جاسوس طیاروں سے میزائل داغے گئے جس میں کم ازکم 16 افراد ہلاک ہوگئے۔
مقامی ذرائع کے مطابق میزائلوں سے مشتبہ شدت پسندوں کے زیر استعمال گھر اور گاڑی کو نشانہ بنایا گیا اور مرنے والوں میں چند غیر ملکی جنگجو جب کہ اطلاعات کے مطابق ایک اہم افغان طالبان کمانڈر بھی شامل ہے۔
ذرائع ابلاغ کی افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے واقعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً نا ممکن ہے۔
جمعرات کو دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں ڈرون حملوں پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور اس بارے میں پاکستان اپنے موقف پر قائم ہے۔
لیکن انھوں نے ماضی کے برعکس صحافیوں سے گفتگو میں ڈرون حملوں کی مذمت نہیں کی۔
تاہم چند گھنٹوں بعد ہی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ڈرون کے تازہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ حملے پاکستان اور خطے میں امن کے لیے کی جانے والی حکومتی کوششوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں گزشتہ سال دسمبر کے بعد ڈرون حملوں کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
امریکہ کی طرف سے افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں ڈرون طیاروں کی کارروائیوں میں تعطل کے بارے میں کوئی بیان تو سامنے نہیں آیا تھا لیکن باور یہی کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی صدر براک اوباما سے ملاقات کے بعد پاکستانی حکومت کی طرف سے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکراتی عمل کو تقویت دینے کے لیے یہ سلسلہ وقتی طور پر روک دیا گیا۔
امریکہ ڈرونز کو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ایک موثر ہتھیار گردانتا ہے اور ایسے حملوں میں متعدد اہم طالبان شدت پسند کمانڈر بھی مارے جاچکے ہیں جن میں گزشتہ نومبر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود بھی شامل ہیں۔
نواز شریف انتظامیہ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے رواں سال کے اوائل میں مذاکرات شروع کیے تھے جو سرکاری کمیٹی اور طالبان شوریٰ کی ایک ہی براہ راست ملاقات کے بعد سے تعطل کا شکار ہیں۔
شدت پسند حالیہ ہفتوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں پر تشدد کارروائیاں کر چکے ہیں جن میں سب سے مہلک کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حملہ تھا۔
سکیورٹی فورسز نے اس دوران جیٹ طیاروں کی مدد سے شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں کارروائیاں کر کے درجنوں شدت پسندوں کو ہلاک اور ان کے ٹھکانے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔
امریکہ اور اس کے اتحادی یہ کہتے آئے ہیں افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے وہ سرحد پار افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج پر مہلک حملے کرتے ہیں۔
امریکی عہدیدار پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ وہ ان شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے جب کہ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ وہ کارروائی کا فیصلہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کرے گا۔
اسی اثنا میں امریکی کانگریس کی طرف سے پاکستان کے لیے آئندہ مالی سال میں امداد کو امریکی حکومت کی اس یقین دہانی سے مشروط کرنے کا کہا گیا ہے کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔
اس بارے میں دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پاکستان اس معاملے سمیت دیگر امور پر امریکی انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
بدھ کو دیر گئے درگاہ منڈی اور جمعرات کو علی الصبح ڈانڈے درپہ خیل میں بغیر ہواباز کے جاسوس طیاروں سے میزائل داغے گئے جس میں کم ازکم 16 افراد ہلاک ہوگئے۔
مقامی ذرائع کے مطابق میزائلوں سے مشتبہ شدت پسندوں کے زیر استعمال گھر اور گاڑی کو نشانہ بنایا گیا اور مرنے والوں میں چند غیر ملکی جنگجو جب کہ اطلاعات کے مطابق ایک اہم افغان طالبان کمانڈر بھی شامل ہے۔
ذرائع ابلاغ کی افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے واقعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً نا ممکن ہے۔
جمعرات کو دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں ڈرون حملوں پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور اس بارے میں پاکستان اپنے موقف پر قائم ہے۔
لیکن انھوں نے ماضی کے برعکس صحافیوں سے گفتگو میں ڈرون حملوں کی مذمت نہیں کی۔
تاہم چند گھنٹوں بعد ہی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ڈرون کے تازہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ حملے پاکستان اور خطے میں امن کے لیے کی جانے والی حکومتی کوششوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں گزشتہ سال دسمبر کے بعد ڈرون حملوں کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
امریکہ کی طرف سے افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں ڈرون طیاروں کی کارروائیوں میں تعطل کے بارے میں کوئی بیان تو سامنے نہیں آیا تھا لیکن باور یہی کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی صدر براک اوباما سے ملاقات کے بعد پاکستانی حکومت کی طرف سے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکراتی عمل کو تقویت دینے کے لیے یہ سلسلہ وقتی طور پر روک دیا گیا۔
امریکہ ڈرونز کو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ایک موثر ہتھیار گردانتا ہے اور ایسے حملوں میں متعدد اہم طالبان شدت پسند کمانڈر بھی مارے جاچکے ہیں جن میں گزشتہ نومبر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود بھی شامل ہیں۔
نواز شریف انتظامیہ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے رواں سال کے اوائل میں مذاکرات شروع کیے تھے جو سرکاری کمیٹی اور طالبان شوریٰ کی ایک ہی براہ راست ملاقات کے بعد سے تعطل کا شکار ہیں۔
شدت پسند حالیہ ہفتوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں پر تشدد کارروائیاں کر چکے ہیں جن میں سب سے مہلک کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حملہ تھا۔
سکیورٹی فورسز نے اس دوران جیٹ طیاروں کی مدد سے شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں کارروائیاں کر کے درجنوں شدت پسندوں کو ہلاک اور ان کے ٹھکانے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔
امریکہ اور اس کے اتحادی یہ کہتے آئے ہیں افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے وہ سرحد پار افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج پر مہلک حملے کرتے ہیں۔
امریکی عہدیدار پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ وہ ان شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے جب کہ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ وہ کارروائی کا فیصلہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کرے گا۔
اسی اثنا میں امریکی کانگریس کی طرف سے پاکستان کے لیے آئندہ مالی سال میں امداد کو امریکی حکومت کی اس یقین دہانی سے مشروط کرنے کا کہا گیا ہے کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔
اس بارے میں دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پاکستان اس معاملے سمیت دیگر امور پر امریکی انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔