کوئلہ نکالنے والے ہزاروں مزدور نقل مکانی پر مجبور

سلامتی کے خدشات کے باعث بلوچستان سے ہزاروں مزدور نقل مکانی کرچکے ہیں جس سے کوئلے کی یومیہ پیداوار تشویش ناک حد تک کم ہوئی ہے۔
پاکستان کے شورش زدہ جنوب مغربی بلوچستان صوبے میں سلامتی کے خدشات کے باعث کوئلہ کی کانوں میں کام کرنے والے ہزاروں مزدور یہاں سے نقل مکان کر گئے ہیں جس کی وجہ سے دیگر شعبوں کی طرح یہ صنعت بھی بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔

معدنی ذخائر سے مالا مال اس صوبے میں کوئلے کی تقریبا 800 کانیں ہیں جہاں محتاط اندازوں کے مطابق 50 ہزار سے زائد مزدور کام کر رہے تھے اور ان کی اکثریت کا تعلق شمالی مغربی خیبر پختوان خواہ صوبے سے ہے۔ مزید ہزاروں دیگر خاندانوں کا روزگار بھی بلواسطہ طور پر اس شعبے سے جڑا ہوا ہے۔

بلوچستان میں علیحدگی پسند کلعدم تنظیمیں طویل عرصے تک سرکاری تنصیبات، ملازمین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو اپنی تخریبی کارروائیوں کا ہدف بناتی رہی ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں ان باغیوں نے حصول روزگار کے لیے پاکستان کے دیگر حصوں سے آکر صوبے میں آباد ہونے والی قومیتوں پر مہلک حملے شروع کر دیے ہیں۔

کوئٹہ میں محکمہ کان کنی کے انسپکٹر افتخار شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ مزدوروں کے چلے جانے کے بعد بیشتر علاقوں میں کوئلہ نکالنے کا کام بند ہو گیا ہے جس سے صوبائی حکومت کو ٹیکس کی مد میں ’’کروڑوں روپے‘‘ کا نقصان ہو رہا ہے۔

’’خوف کا ماحول ہے! واردات ایک جگہ ہوتی ہے مگر اس کا اثر بہت خطرناک ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے افرادی قوت خاص طور پر جو سوات کی تھی وہ تقریباً جا چکی ہے۔ مقامی مزدور یا افغان باشندے اور ہزارہ برادری کے کچھ لوگ رہ گئے ہیں۔‘‘

پاکستان سنٹرل مائینز لیبر فیڈریشن کے مرکزی صدر بخت نواب یوسفزئی کہتے ہیں کہ ڈر اور خوف کے باعث صوبے سے مزدوروں کے چلے جانے سے کوئلے کی یومیہ پیداوار بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

’’بلوچستان میں ہماری کوئلے کی یومیہ پیدوار 5,000 ٹن سے زیادہ تھی۔ ابھی چند سو ٹن یومیہ پیداوار بھی نا ممکن ہے۔ باقی یہاں جو لیز کی بڑی بڑی کمپنیاں تھیں ان میں سے کچھ تو مستقل طور پر بند ہو گئیں۔‘‘

صوبائی حکومت نے کان کنوں کے تحفظات دور کرنے کے لیے بعض علاقوں میں نیم فوجی فرنٹئیر کور (ایف سی) کے اہلکار بھی تعینات کیے ہیں، لیکن محکمہ معدنیات کے انسپکٹر افتخار شاہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے وسیع و عریض علاقے میں موجود ان کانوں میں سے ہر ایک پر سرکاری محافظوں کی تعیناتی ممکن نہیں۔

’’ایف سی (کے اہلکار) ہر کان پر تو نہیں بیٹھ سکتے اس وقت (کوئٹہ اور اس کے مضافاتی علاقے) میں 40 سے 45 کانوں پر کام ہو رہا ہے، ہر کان پر اگر آپ 10، 10 ایف سی والے بٹھائیں تو پھر (مزدوروں) کو کچھ اعتماد ہو گا۔ کانیں پہاڑ پر ہیں اور مرکزی شاہراہیں ان سے چار، پانچ کلومیڑ دور ہیں۔‘‘