قمر زمان چودھری نے بتایا کہ صورتحال کو جان لینے کے بعد ضرورت اب اس امر کی ہے کہ اس کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے مجموعی طور پر اقدامات کیے جائیں۔
اسلام آباد —
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحول کو پہنچنے والے نقصانات کی وجہ سے ملک میں پانی کی دستیابی اور غذائی تحفظ کے علاوہ توانائی کے شعبے کو بھی خطرات لاحق ہیں، جب کہ یہ تبدیلیاں خاص طور پر مون سون بارشوں کی مقدار اور دورانیے میں تبدیلی کا سبب بن رہی ہیں جس سے حالیہ برسوں میں ملک کو سیلابوں اور خشک سالی کا سامنا رہا۔
اس بات کا انکشاف قومی اقتصادی جائزہ رپورٹ میں کیا گیا جس کے مطابق ماحولیاتی تغیر و تبدل سے ملکی معیشت کے لیے 365 ارب روپے کے نقصان کا سبب بھی بنا ہے۔
تاہم غیر جانبدار ماہرین صورتحال کو اس سے کہیں زیادہ سنگین قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ نقصان کا یہ تخمینہ ساڑھے چار سو ارب روپے تک ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام "یو این ڈی پی" سے وابستہ ماحولیاتی مشیر ڈاکٹر قمر زمان چودھری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے ماحولیاتی نظام میں خرابی اور اس سے ہونے والے نقصانات کا اعتراف کرنا ایک اہم بات ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کس طرح معیشت کو متاثر کرتی ہے اس بارے میں ان کا کہنا تھا۔
"اگر پینے کا صاف پانی نہیں ہے اور اس سے صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو اس پر جو خرچہ ہے اس طرح نکاسی آب اور پھر فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے صحت پر خاصا خرچ آتا ہے، اسی طرح موسمیاتی تبدیلی سے جو فرق پڑتا ہے اس سے لوگوں کی املاک کو اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کو جو نقصان ہوتا ہے وہ سب اس میں شامل ہے۔"
تیزی سے کم ہوتے جنگلات بھی ماحولیاتی تبدیلی کا ایک اہم سبب ہیں جس سے سیلاب، زمین کا کٹاؤ اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
پاکستان کے کل رقبے کے صرف 2.1 فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں جو کہ بین الاقوامی سطح پر رائج شرح سے بے انتہا کم ہیں۔
عالمی ادارے بھی پاکستان میں تیزی سے کم ہوتے جنگلات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے آئے ہیں اس سے تباہ کن سیلاب، مٹی کے تودے گرنے کے واقعات کے علاوہ فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
قمر زمان چودھری نے بتایا کہ صورتحال کو جان لینے کے بعد ضرورت اب اس امر کی ہے کہ اس کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے مجموعی طور پر اقدامات کیے جائیں۔
"یہ کسی ایک وزارت یا محکمے کا کام نہیں اس میں پانی و بجلی کی وزارت ہے، ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت ہے، توانائی کی وزارت ہے اور انرکون ہے ان تمام کو چاہیئے کہ جو بھی چیزیں اور عوامل ماحول کو نقصان پہنچا رہے ہیں ان کے بارے میں ضروری اقدامات کیے جائیں، متبادل توانائی کی طرف توجہ دی جائے، فضائی آلودگی کو کم کیا جائے۔"
حکومت کے اقتصادی سروے میں ملک میں غربت کو بھی ماحولیاتی تنزلی سے جوڑا گیا۔ سروے کے مطابق پاکستان کی ایک چوتھائی آبادی کی گزر اوقات براہ راست زراعت، جنگلات، شکار اور ماہی گیری سے وابستہ ہے اور تیزی سے بڑھتی آبادی اور لوگوں کے دیہاتوں سے شہری علاقوں میں منتقل ہونے کی وجہ سے جہاں قدرتی وسائل پر اثر پڑا ہے وہیں یہ امر ماحولیاتی تنزلی کے اسباب میں ایک وجہ بن کر سامنا آیا ہے۔
اس بات کا انکشاف قومی اقتصادی جائزہ رپورٹ میں کیا گیا جس کے مطابق ماحولیاتی تغیر و تبدل سے ملکی معیشت کے لیے 365 ارب روپے کے نقصان کا سبب بھی بنا ہے۔
تاہم غیر جانبدار ماہرین صورتحال کو اس سے کہیں زیادہ سنگین قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ نقصان کا یہ تخمینہ ساڑھے چار سو ارب روپے تک ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام "یو این ڈی پی" سے وابستہ ماحولیاتی مشیر ڈاکٹر قمر زمان چودھری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے ماحولیاتی نظام میں خرابی اور اس سے ہونے والے نقصانات کا اعتراف کرنا ایک اہم بات ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کس طرح معیشت کو متاثر کرتی ہے اس بارے میں ان کا کہنا تھا۔
"اگر پینے کا صاف پانی نہیں ہے اور اس سے صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو اس پر جو خرچہ ہے اس طرح نکاسی آب اور پھر فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے صحت پر خاصا خرچ آتا ہے، اسی طرح موسمیاتی تبدیلی سے جو فرق پڑتا ہے اس سے لوگوں کی املاک کو اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کو جو نقصان ہوتا ہے وہ سب اس میں شامل ہے۔"
تیزی سے کم ہوتے جنگلات بھی ماحولیاتی تبدیلی کا ایک اہم سبب ہیں جس سے سیلاب، زمین کا کٹاؤ اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
پاکستان کے کل رقبے کے صرف 2.1 فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں جو کہ بین الاقوامی سطح پر رائج شرح سے بے انتہا کم ہیں۔
عالمی ادارے بھی پاکستان میں تیزی سے کم ہوتے جنگلات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے آئے ہیں اس سے تباہ کن سیلاب، مٹی کے تودے گرنے کے واقعات کے علاوہ فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
قمر زمان چودھری نے بتایا کہ صورتحال کو جان لینے کے بعد ضرورت اب اس امر کی ہے کہ اس کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے مجموعی طور پر اقدامات کیے جائیں۔
"یہ کسی ایک وزارت یا محکمے کا کام نہیں اس میں پانی و بجلی کی وزارت ہے، ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت ہے، توانائی کی وزارت ہے اور انرکون ہے ان تمام کو چاہیئے کہ جو بھی چیزیں اور عوامل ماحول کو نقصان پہنچا رہے ہیں ان کے بارے میں ضروری اقدامات کیے جائیں، متبادل توانائی کی طرف توجہ دی جائے، فضائی آلودگی کو کم کیا جائے۔"
حکومت کے اقتصادی سروے میں ملک میں غربت کو بھی ماحولیاتی تنزلی سے جوڑا گیا۔ سروے کے مطابق پاکستان کی ایک چوتھائی آبادی کی گزر اوقات براہ راست زراعت، جنگلات، شکار اور ماہی گیری سے وابستہ ہے اور تیزی سے بڑھتی آبادی اور لوگوں کے دیہاتوں سے شہری علاقوں میں منتقل ہونے کی وجہ سے جہاں قدرتی وسائل پر اثر پڑا ہے وہیں یہ امر ماحولیاتی تنزلی کے اسباب میں ایک وجہ بن کر سامنا آیا ہے۔