ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے اگرچہ سنگین مسائل پیدا کر سکتی ہے لیکن اگر اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے موثر حکمت عملی وضع کر لی جائے تو اس کے مضر اثرات کو ملک کی زراعت پر مبنی معیشت کی ترقی کا زریعہ بنایا جا سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق حالیہ تباہ کن سیلاب اس بات کا انتباہ ہیں کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں کس قدر زیادہ خطرات لاحق ہیں اور ملک کو آئندہ مزید سیلاب یا پھر خشک سالی کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں بین الا قوامی یونین برائے تحفظ قدرت یعنی آئی یو سی این کے ایک سینئر عہدیدار محمود اخترچیمہ نے کہا کہ عالمی حدت میں اضافہ پاکستان کی زرعی ترقی کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے جس کی ایک مثال یہ کہ درجہ حرارت بڑھنے سے ملک کے ان پہاڑی علاقوں میں جہاں ٹھنڈک کی وجہ سے گندم کاشت نہیں ہو سکتی تھی اب وہاں اس فصل کو اُگا کر پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
جب کہ پگھلنے والے گلیشیروں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے اگر صرف زیر زمین ذخائر ہی قائم کر دیے جائیں تو نہ صرف سیلاب کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ محفوظ کردہ پانی کو بجلی کی پیداوار، آبپاشی اور آبی قلت کے سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
محمود چیمہ نے بتایا کہ موسمی تبدیلی کی بنیادی وجہ ترقی یافتہ ملکوں کے صنعتی علاقوں سے نکلنے والا دھواں ہے اور اس ضمن میں پچیس فیصد اخراج صرف امریکہ سے ہو رہا ہے جب کہ کئی یورپی ملک بھی اس آلودگی میں اضافے کے ذمہ دار ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان صنعتی دھواں خارج کرنے والے ملکوں کی فہرست میں ایک سو چونتیسویں نمبر پر یعنی بہت پیچھے ہے لیکن اس کے باوجود ملک کو جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے عالمی حدت کے اثرات سے نسبتاً زیادہ خطرات لاحق ہیں۔
انہوں نے موسمی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے پاس موجود صلاحیت پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں سب سے ضروری یہ کہ فوری طور پر چھوٹے ڈیم بنائے جائیں اور جنگلات کے ناکافی رقبے میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے جو ان کے مطابق پاکستان کو سیلاب سے بہترین تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔
‘‘پڑوسی ملک بھارت میں اس وقت گیارہ بڑے ڈیم بن رہے ہیں چین میں ستر سے زائد بڑے ڈیم بن رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں اگر ایک بھی ڈیم بنانا ہو تو سیاسی تنازعات آڑے آ جاتے ہیں’’۔
اسد مجید دفتر خارجہ کے ڈائریکڑ جنرل برائے اقوام متحدہ ہیں جو اس تشویش کو درست قرار دیتے ہیں کہ ملک کو عالمی موسمی تبدیلی کے تناظر میں آئندہ پانی کی افراط یا پھر شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے جو سیلاب اور خشک سالی کا سبب بن سکتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام ممکن اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں جن میں آبی ذخائر کی تعمیر اور آفت سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کو مستحکم بنانا شامل ہے۔
اسد مجید نے کہا کہ حالیہ تباہ کن سیلاب کے بعد اس طرح کی مزید قدرتی آفات کے مقابلے کو ملک کی مجموعی ترقی کی حکمت عملی میں ترجیحی حیثیت حاصل ہے۔