چولستان میں تھر جیسی صورتحال کا خدشہ

فائل فوٹو

خشک سالی تو صحرائی علاقوں کا ہمیشہ سے مسئلہ رہی ہے لیکن موسمیاتی تغیر و تبدل اس کی سنگینی میں اضافہ کر سکتا ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں خشک سالی اور پھر اناج کی تقسیم میں مبینہ بدانتظامی سے جنم لینے والی انسانی المیے کے پنجاب کے صحرائی علاقے چولستان تک پہنچنے کی اطلاعات بھی آ رہی ہیں۔

گو کہ اس بارے میں تاحال کوئی مصدقہ اطلاع سامنے نہیں آئی لیکن مقامی ذرائع ابلاغ میں چولستانی علاقوں میں خشک سالی کے باعث جانوروں کی ہلاکت اور بعض مقامات سے لوگوں کی نقل مکانی کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔

چولستان کا علاقہ تقریباً 26 ہزار تین سو مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی آبادی لاکھوں میں بیان کی جاتی ہے۔ لوگوں کی اکثریت کی گزر اوقات کا اہم ذریعہ گلہ بانی ہے جب کہ بعض علاقوں میں لوگ زراعت سے بھی وابستہ ہیں۔

چولستان میں کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم چولستان ڈویلپمنٹ کونسل کے ایک عہدیدار علیم احمد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خشک سالی تو صحرائی علاقوں کا ہمیشہ سے مسئلہ رہی ہے لیکن موسمیاتی تغیر و تبدل اس کی سنگینی میں اضافہ کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند سالوں میں بارشیں کم ہوئیں جس کی وجہ سے لوگوں کے جانور بھی مررہے ہیں اور کچھ جانی نقصان بھی ہوا جب کہ لوگوں کو نقل مکانی بھی کرنا پڑی لیکن وہ مالی طور پر ایسے نہیں تھے کہ زیادہ عرصہ شہری علاقوں میں رہ سکتے تو انھیں لامحالہ واپس جانا پڑا

‘‘ابھی ہم قحط سالی تو نہیں کہہ سکتے لیکن اس سے اولین نقصان جو ہوتا ہے وہ کہہ سکتے ہیں، اگر موسم یہاں کی تاریخ کے حساب سے ویسا ہی رہا اور بارشیں نہ ہوئیں تو یہاں تھر سے بھی بری حالت ہوسکتی ہے۔‘‘

علیم احمد نے بتایا کہ شہری علاقوں کے قریب واقع مقامات میں نہری نظام کے ذریعے پہنچنے والا پانی موسم گرما میں ناکافی ہوتا ہے جب کہ چولستان کے دور دراز علاقے جہاں لوگوں کا دارومدار بارش کے ذخیرہ کردہ پانی یعنی ٹوبوں پر ہوتا ہے وہاں صورتحال گرمیوں میں مزید سنگین ہوسکتی ہے۔

صوبہ سندھ میں تھر کے علاقے میں غذائی قلت سے اور اس سے جنم لینے والی بیماریوں کی وجہ سے بچوں سمیت درجنوں اموات ہو چکی ہیں جس کا پاکستان کی سپریم کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے حکام سے جواب طلب کر رکھا ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومت کے علاوہ فوج اور بعض مخیر حضرات کی طرف سے تھر میں خوراک اور طبی امداد پہنچائی گئی۔

چولستان کے ایک علاقے کھتڑی بنگلہ سے تعلق رکھنے والے گل محمد چنڑ کا کہنا تھا کہ بارشیں کم ہونے کی وجہ سے مال مویشیوں کا نقصان ہوتا رہتا ہے لیکن وہ پرامید ہیں قحط سالی کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ماضی میں تحصیل یزمان سے ایک پائپ لائن کے ذریعے بھی چولستان کے مختلف علاقوں تک پانی کی فراہمی شروع کی گئی جس سے عمومی صورتحال میں بہتری آئی۔

‘‘ آئے روز جو اموات ہوتی تھیں یا جانور مرتے تھے اب اس میں غالباً 70 سے 80 فیصد کمی ہوئی ہے جو پائپ لائن کے ذریعے پانی جارہا ہے۔ لوگ نقل مکانی سے بچ گئے ہیں۔ جب وہاں پانی کم ہوتا ہے تو دیگر جانوروں والے لوگ تو تھوڑا بہت نقل مکانی کرتے ہیں لیکن جن کے پاس اونٹ وغیرہ ہیں وہ وہیں رہ کر گزارا کر لیتے ہیں۔’’

حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ چولستان میں کسی بھی طرح قحط سالی کی سی صورتحال پیدا نہیں ہوئی اور حکومت تھر کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں مناسب اقدامات کر رہی ہے۔