سپریم کورٹ نے مظفر گڑھ پنچائیت واقعے کا نوٹس لے لیا

گزشتہ ہفتے پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کے ایک گاؤں موضع ٹبہ شرقی میں ایک پنچائیت نے ایک 45 سالہ بیوہ خاتون فضلاں بی بی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا حکم سنایا تھا۔
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے ایک پنچائیت کی طرف سے خاتون کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کا میبنہ حکم دینے کے واقعے کا ازخود نوٹس لیا ہے۔

سپریم کورٹ سے ہفتہ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اس واقعے سے متعلق مقامی روزنامے میں شائع ہونے والی خبر پر نوٹس لیتے ہوئے پنجاب پولیس کے سربراہ سے رپورٹ طلب کی ہے۔

گزشتہ ہفتے پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کے ایک گاؤں موضع ٹبہ شرقی میں ایک پنچائت نے ایک 45 سالہ بیوہ خاتون فضلاں بی بی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا حکم سنایا تھا۔ یہ فیصلہ اس خاتون کے بھائی کے ایک دوسرے خاندان کی لڑکی کے ساتھ مبینہ ناجائز تعلقات کی بنا پر سنایا گیا۔

مقامی پولیس حکام کے مطابق پنچائیت کی طرف سے یہ فیصلہ 24 جنوری کو سنایا گیا تھا تاہم خاتون کی آبروریزی نہیں ہوئی جب کہ چند مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لیا جا چکا ہے۔

سپریم کورٹ کے بیان کے مطابق پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل کو اس خبر کی حقیقت اور اس پر کی گئی پولیس کی کارروائی سے متعلق رپورٹ چار فروری تک عدالت عظمیٰ میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔

اس واقعے کے منظر عام پر آنے کے بعد انسانی حقوق اور خصوصاً خواتین کے حقوق سے متعلق سرگرم تنظیموں کی طرف سے ایک بار پھر شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔

انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن فرزانہ باری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے نوٹس لیا جانا اچھی بات ہے لیکن ایسے واقعات کے تدارک کے لیے یہ کافی نہیں۔

’’عدلیہ اور انتظامیہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، سپریم کورٹ کا یہ حکم تھا کہ جرگے اور پنچائیتیں غیر قانونی ہیں تو انتظامیہ کو اس کی نگرانی کرنی چاہیے تو ہی اسی چیزوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔‘‘

قبائلی اور جاگیردارانہ پس منظر میں جرگہ اور پنچائیت ایک قدیم نظام ہے اور اکثر لوگ اسے اپنی روایت قرار دیتے ہیں۔

لیکن فرزانہ باری کے نزدیک ملک میں انصاف کے حصول میں مشکلات اس جدید دور میں بھی اس نظام کے رائج ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

’’عدالتوں سے انصاف کا حصول اتنا مشکل ہوتا ہے کہ لوگ پھر اپنے جرگوں اور پنچائیتوں کے پاس جا کر فیصلے کرواتے ہیں، اگر لوگوں کو سستا اور فوری انصاف ملے تو یہ مسئلے ختم ہوسکتے ہیں۔

ملک میں پنچائتوں اور جرگوں کی طرف سے آئے روز ایسے فیصلے سنائے جاتے ہیں جو بنیادی انسانی حقوق اور ملکی قوانین کے خلاف ہوتے ہیں لیکن ان میں سے چند ایک ہی منظر عام پر آتے ہیں۔