سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ وہ مقدمات میں جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف جنگ کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں جھوٹی گواہیوں اور مقدمات میں تاخیری حربے اپنانے کے باعث عدلیہ پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔
سینٹرل پولیس آفس کراچی میں "انصاف کے شعبے میں اصلاحات" کے موضوع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت جھوٹی گواہیاں دینے والے 15 ملزمان کے خلاف ملک میں مقدمات چل رہے ہیں جن کی تعداد میں آنے والے دنوں میں اضافہ ہو گا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگلے مرحلے میں ان تفتیشی افسروں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا جو انصاف کے اصولوں کے برخلاف تفتیش کرتے ہیں اور غلط چالان جمع کروا کر عدالتوں میں مقدمات کی تاخیر کا باعث بن رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے اس پر زور دیا کہ پولیس اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیاں معیاری تفتیش کے لیے جدید تکنیک اور پیشہ وارانہ مہارت کا استعمال کریں تاکہ کم وقت میں بہتر اور ٹھوس نتائج حاصل ہوں اور عدالتوں میں ملزمان کے خلاف کیسز ثابت کیے جا سکیں۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ عدالتی نظام میں بھی مؤثر تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں جس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ ملک بھر میں پولیس افسروں کے خلاف ایس پی رینک کے عہدے داروں کی زیر نگرانی کمپلین سیلز میں 71 ہزار سے زائد شکایات جمع کرائی گئیں، جن میں سے 57 ہزار کا بر وقت ازالہ کیا جا چکا ہے۔ اس عمل سے ماتحت عدالتوں پر کام کے بوجھ میں 11 فیصد جب کہ اعلیٰ عدالتوں پر مقدمات کے دباؤ میں بھی 20 فیصد کمی ہوئی ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے مطابق ماڈل کورٹس کی طرز پر ملک بھر کے تمام اضلاع میں خواتین پر تشدد کے خلاف اور بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق عدالتیں بھی جلد کام شروع کرنے والی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ای کورٹ سسٹم متعارف کرایا گیا ہے جس سے سائلین کے لاکھوں روپے بچ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس نظام کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلایا جائے گا۔ جب کہ ماڈل کورٹس جہاں فی الوقت قتل اور منشیات جیسے سنگین مقدمات سنے جاتے ہیں، وہاں 3 ماہ کے دوران 9 ہزار 763 مقدمات کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔
چیف جسٹس نے یہ بھی شکوہ کیا کہ نظام انصاف میں اصلاحات حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا احساس کیا جانا ضروری ہے کہ عوام کو انصاف ان کی دہلیز پر پہنچانا اور اس میں حائل رکاوٹیں دور کرنا حکومت کا ہی فرض ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے لیے پولیس کی آزادی ضروری ہے۔ اگر پولیس آزاد نہیں ہو گی تو اس سے نظام انصاف ہی کو نقصان پہنچے گا۔
اس سے قبل چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں ملک بھر میں پولیس کے اداروں میں اصلاحات سے متعلق اجلاس بھی ہوا، جس میں چاروں صوبوں کے انسپکٹر جنرلز نے شرکت کی۔ اجلاس میں سابق آئی جی سندھ شعیب سڈل بھی شریک ہوئے اور سندھ میں حال ہی میں منظور ہونے والے پولیس کے نئے قوانین سے متعلق ایکٹ پر تبادلہ خیال کیا۔