چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے پر غور

چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان، فائل فوٹو

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کے بعد اب چیف الیکشن کمشنر سردار رضا کے خلاف ریفرنس دائر کرنے غور کیا جا رہا ہے۔

دونوں جج صاحبان کے خلاف ریفرنس دائر ہو چکا ہے جب کہ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس کے لیے حکومت کابینہ میں اس معاملے پر مزید بات چیت کرنا چاہ رہی ہے۔

حکومت نے بلوچستان سے منیر احمد کاکڑ اور سندھ سے خالد محمود صدیقی کو الیکشن کمشن کے ممبر تعینات کیا تھا جن سے چیف الیکشن کمشنر نے حلف لینے سے انکار کر دیا۔

چیف الیکشن کمشنر سے حکومتی ناراضگی کیوں؟؟

اس معاملہ کا آغاز گزشتہ ماہ اس وقت ہوا جب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کو نظر انداز کر کے الیکشن کمشن کے دو ممبران کا تقرر کر دیا گیا۔

چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا نے صدر مملکت کی جانب سے مقرر کیے گئے دو نئے ارکان سے حلف لینے سے انکار کر دیا، جس کے بعد آئینی بحران پیدا ہو گیا۔

چیف الیکشن کمشنر سردار رضا کا کہنا تھا کہ ان کی تعیناتی آئینی اصولوں کے مطابق نہیں ہوئی، لہذا وہ ان ارکان سے حلف نہیں لے سکتے۔

قانون کیا کہتا ہے؟

قانون کے مطابق الیکشن کمشن کے ارکان کی تقرری کے لئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈرکے درمیان بامعنی مشاورت آئینی تقاضا ہے۔ اگر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر اس حوالے سے فیصلہ نہ کر سکیں تو یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دیا جاتا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی میں بھی اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں کیا کیا جائے اس پر آئین خاموش ہے۔

موجودہ صورت حال میں وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان پورے سال کوئی ملاقات ہوئی اور نہ ہی پارلیمانی کمیٹی میں دو ارکان کے ناموں پر اتفاق رائے ہوا۔اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں آئین خاموش ہے۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھجوانا چاہیے تھا، لیکن حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی بجائے از خود دو ارکان کی تقرری کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔

حکومتی موقف

وزیر قانون فروغ نسیم کہتے ہیں کہ اس معاملے میں ڈیڈلاک ہو گیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر کے پاس حلف نہ لینے کا کوئی اختیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب اس مرحلے پر آئین میں اس حوالے سے کچھ نہیں لکھا تو صدر کو اختیار ہے کہ وہ ایگزیگٹو آرڈر جاری کر سکتے ہیں لیکن چیف الیکشن کمشنر کو اختیار نہیں کہ وہ صدر کے نامزد ممبران سے حلف لینے سے انکار کریں۔

معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں

اس تنازع پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکیل جہانگیر خان جدون نے درخواست دائر کی جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 اگست کو پہلی سماعت کی اور ابتدائی سماعت کے بعد سیکرٹری صدر پاکستان، پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم اور وزارت پارلیمانی امور سے جواب طلب کر لیا۔

پہلی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کی بجائے ان معاملات کو عدالت میں کیوں لایا جاتا ہے۔

درخواست گزار جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ آئین کے مطابق وزیراعظم اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مشاورت کے بعد تین نام بھیجتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اپوزیشن لیڈر نے تعیناتی کو کہیں چیلنج کیا ہے؟ جس پر وکیل جہانگیر خان جدون نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر سے ممبران کی تعیناتی پر مشاورت نہیں کی گئی۔

عدالت نے محسن شاہنواز رانجھا اپوزیشن رکن اسمبلی سے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ میں ایسا کوئی فورم نہیں جہاں یہ معاملہ اٹھایا جا سکے جس پر محسن شاہنواز رانجھا کا کہنا تھا کہ نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد عدالت سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی فورم نہیں۔ اس پر عدالت نے نوٹسز جاری کر دیے۔

12 ستمبر کو ہونے والی سماعت میں الیکشن کمشن کی طرف سے باضابطہ جواب جمع کروا دیا گیا جس میں دو نئے ممبران کی تقرری کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صدر مملکت نے ممبران کی تقرری کرتے ہوئے آرٹیکل 213 اے اور بی کی خلاف ورزی کی۔ چیف الیکشن کمشنر نے ممبران سے حلف لینے سے انکار کیا۔آرٹیکل 214 میں ممبران کے حلف کا طریقہ کار موجود ہے۔

جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ حلف وہ لے سکتا ہے جو بطور ممبر تعینات تصور کیا جائے۔ صدر کی جانب سے دو ممبران کا تقرر تعیناتی کے تحت نہیں آتا۔ چیف الیکشن کمشنر نے ممبران کا حلف لینے سے انکار کیا۔ 23 اگست کو سیکرٹری پارلیمانی امور کو حلف نہ لینے سے آگاہ کر دیا تھا۔ الیکشن کمشن کے جواب کے ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ الیکشن کمشن کے دو ممبران کی تعیناتی کو لاہور ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا ہے۔

اب حکومت کیا کرے گی؟

اس صورت حال میں حکومت نے چیف الیکشن کمشنر سردار رضا کے خلاف ریفرنس دائر کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ اس بارے میں اعلیٰ سطح پر مشاورت بھی کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے ابتدائی مشاورت کر لی گئی ہے اور حتمی فیصلہ دو سے تین روز میں ہونے کا امکان ہے۔

چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس وفاقی وزیر پارلیمانی امور اعظم خان سواتی دائر کریں گے۔

تاہم اس حوالے سے حکومت عوامی ردعمل کا جائزہ بھی لے رہی ہے کیونکہ دو جج صاحبان کے خلاف دائر ریفرنس پر حکومت کو اس قدر پذیرائی نہیں مل سکی تھی اور وکلا کی مختلف تنظیموں نے اس پر شدید اجتجاج کیا تھا، ایسی صورت حال میں اگر سپریم جوڈیشل کونسل میں حکومت اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکی تو اسے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔