پاکستان کی 13 ویں کابینہ اپنی مدت پوری نہ کرسکی

پاکستان کی 13 ویں کابینہ اپنی مدت پوری نہ کرسکی

پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کو آج تاریخی اوراق میں یہ حیثیت حاصل ہوگئی ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی مرتب کردہ کابینہ مدت پوری کئے بغیر تحلیل ہوگئی ہے۔ کابینہ کو تحلیل کرنے کا یہ 64 سالہ ملکی تاریخ کا تیرہواں واقعہ ہے۔ اس سے قبل سابق فوجی سربراہ و صدر ضیاء الحق سب سے زیادہ یعنی چار مرتبہ کابینہ تحلیل کرنے کا 'منفرد اعزاز' حاصل کرچکے ہیں۔ ان سے زیادہ کسی اور صدر یا وزیر اعظم نے کابینہ تحلیل نہیں کی۔ سابق صدر اور سابق فیلڈ مارشل ایوب خان نے تین بار کابینہ تحلیل کرنے کا 'اعزاز' حاصل کیا جبکہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 2بار، سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے بھی 2 بار جبکہ سابق وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے ایک مرتبہ کابینہ تحلیل کی۔

آج تقریباً 80ممبران پر مشتعل جہازی کابینہ مستعفی ہوئی جن میں وفاقی وزراء مخدوم امین فہیم، ڈاکٹر ارباب عالمگیر، پیر آفتاب شاہ جیلانی، چوہدری احمد مختار، حمید اللہ جان آفریدی، سردار آصف احمد علی، ڈاکٹر حفیظ شیخ، مخدوم شاہ محمود قریشی، نذر محمد گوندل، مخدوم شہاب الدین، سید ممتاز عالم گیلانی، میر ہزار خان بجارانی، رحمن ملک، قمر زمان کائرہ، میاں رضا ربانی، میاں منظور احمد وٹو، سید خورشید احمد شاہ، ڈاکٹر بابر اعوان، ہمایوں عزیز کرد، شہباز بھٹی، ارباب ممتاز زہری شامل ہیں۔ جبکہ جو وزرائے مملکت مستعفی ہوئے ان میں چوہدری امیتاز صفدر وڑائچ، سردار سلیم حیدر خان، غلام فرید کاٹھیا، حنا ربانی کھر، رفیق احمد جمالی، نوابزادہ ملک احمد خان، محمد طارق انیس، سید شمس علی، تسنیم احمد قریشی، عبدالرزاق، مسعود عباس، سردار نبیل گبول، محمد جادم منگریو، محمد افضل سندھو، آیت اللہ درانی اورشگفتہ جمانی شامل ہیں۔

اکتیس مارچ دوہزار آٹھ کو پہلی چوبیس رکنی وفاقی کابینہ نے سابق صدر پرویز مشرف سے اپنی وزارتوں کا حلف اٹھایا۔ مسلم لیگ نون کے وزرا حلف برداری کی تقریب میں بطور احتجاج سیاہ پٹیاں باندھ کر شریک ہوئے۔ پہلی چوبیس رکنی کابینہ میں پیپلز پارٹی کے گیارہ وزرا، مسلم لیگ نون کے نو، اے این پی کے دو، اور جے یو آئی اور فاٹا کا ایک وزیر شامل تھا۔ تیرہ مئی دو ہزار آٹھ کون لیگ وزارتوں سے مستعفی ہوگئی ۔

اسحاق ڈار کے بعد خزانے کی وزارت فاروق ایچ نائیک کو دی گئی تاہم چیئرمین سینیٹ کا عہدہ خالی ہونے پر اکتیس مارچ دو ہزار آٹھ کو انہوں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ یوں ان کی جگہ شوکت ترین کو لایا گیا۔ بعد میں شوکت ترین کو سینیٹر منتخب کرلیاگیا ۔23 مارچ دوہزار دس کو شوکت ترین وزارت سے مستعفی ہوگئے اور یوں ان کی جگہ عبدالحفیظ شیخ کو لایاگیا۔

تین نومبر دو ہزار آٹھ کو کابینہ میں توسیع کی گئی اور بائیس نئے وزرا اور اٹھارہ وزرائے مملکت شامل کیے گئے ۔ چھبیس جنوری دو ہزار نو کو مزید چار وزرا شامل کیے گئے اور یوں وفاقی کابینہ کا حجم تریسٹھ وزراء تک پہنچ گیا۔

چودہ مارچ دو ہزار نو کو وفاقی وزیر اطلاعات شیری رحمن نے اختلافات کے باعث وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور یوں یہ قلمدان ملا قمر زمان کائرہ کو۔

حج انتظامات میں کرپشن کے الزامات کے بعد وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی اور جے یو آئی کے وزیر مملکت اعظم سواتی کے درمیان تند وتیز بیانات اور الزام تراشی پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے دسمبر دو ہزار دس کو ان دونوں وزراء کو فارغ کردیا ۔ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن نے اپنی پارٹی کے وزیر کی برطرفی پر بطور احتجاج حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیا اور یوں چودہ دسمبر دوہزار دس کو جے یو آئی کے دیگر دو ورزا مولانا عطاالرحمن اور رحمت اللہ کاکڑ بھی وفاقی کابینہ سے مستعفی ہوگئے۔

ابھی حکومت جے یو آئی کو منانے میں مصروف تھی کہ ستائیس دسمبر دوہزار دس کو ایم کیوایم نے بھی وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیا اور ڈاکٹر فاروق ستار اور بابر غوری وفاقی کابینہ سے مستعفی ہوگئے۔

حالات ناسازگار تھے اور حکومتی کشتی ڈانوں ڈول تھی کہ مسلم لیگ نون نے حکومت کو کرپشن ختم کرنے اورحالات بہتر بنانے کے لیے دس نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے پینتالیس دن کی ڈیڈ لائن دی جس پر دونوں جماعتوں کی کمیٹیاں مذاکرات کررہی ہیں۔فی الحال بھاری بھرکم وفاقی کابینہ تحلیل ہوچکی ہے اور پہلے مرحلے میں مختصر کابینہ تشکیل دینے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔